مستحسن اقدامات

308

وفاق اور سندھ کی حکومتوں نے کورونا سے متاثرین کی مدد کے لیے مختلف پیکیجز کا اعلان کیا ہے۔ وفاق نے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے تین ماہ کے بجلی کے بل ادا کرنے کا اعلان کیا ہے اور لاک ڈائون کے دوران بیروزگار ہونے والوں کے لیے 75 ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت نے اعلان کیا ہے کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد دکانوں، مارکیٹوں اور چھوٹی صنعتوں کو مئی، جون اور جولائی کے بل ادا نہیں کرنے ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے کے۔الیکٹرک پر بھی کسی فیصلے کا اطلاق کیا ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کے۔الیکٹرک اس اعلان پر کس حد تک عمل کرتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق بیروزگار ہونے والوں کو ویب سائٹ پر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ جس سطح کے ملازمین بیروزگار ہو رہے ہیں ان کی اکثریت ویب پورٹل پر اپنی رجسٹریشن کرانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ساری دُنیا میں اعداد و شمار اور شہریوں کے بارے میں معلومات رکھنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ رائج ہے۔ امریکا و یورپ میں سوشل سیکورٹی کارڈ کا نظام رائج ہے۔ سوشل سیکورٹی نمبر ڈالتے ہی اس کی ملازمت کی کیفیت، تنخواہ، گھر کا پتا سب کچھ سامنے آجائے گا۔ وفاقی حکومت نے رعایتی پیکیج دے کر اچھا اقدام کیا ہے۔ بجلی کے بلوں کا معاملہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے لیکن بیروزگار ہونے والوں کے لیے 12 ہزار ہی سہی کچھ رقم تو مختص کی گئی ہے۔ اب شرط یہ ہے کہ یہ رقم متاثرین تک محفوظ طریقے سے پہنچ جائے۔ چھوٹے کاروباریوں کا مسئلہ بجلی کا بل نہیں ہے بلکہ کاروبار ہے۔ وفاق اور صوبوں کو بھی معلوم ہے کہ اگر چھوٹے تاجروں کا کاروبار کھلے گا تو وہ نہ صرف خود بجلی کے بل ادا کر سکیں گے بلکہ بیروزگاری کی شرح بھی ازخود کم ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر وفاق کے پاس کوئی سوشل سیکورٹی سسٹم ہوتا تو لوگوں کے کارڈ بنے ہوئے ہوتے جن کی مدد سے ان کو ایسے مواقع پر مدد دی جاسکتی تھی۔ اب تک اگر یہ کام نہیں ہوا تو کورونا کی بدولت اس سمت میں اب سوچا جائے اور ہر شہری کو سوشل سیکورٹی کارڈ دیا جائے تاکہ بیروزگار ہوتے ہی ریاست کے علم میں آجائے اور اس کی مدد کی جاسکے۔ حکومت سندھ نے بھی شہریوں کو کم و بیش اسی قسم کی رعایتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسکول فیس، یوٹیلیٹی بلز وغیرہ میں رعایت اور نجی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ ملازمین کو روزگار سے نہ نکالیں۔ اسی طرح پچاس ہزار سے کم تنخواہ والوں کو مکمل ادائیگی اور ان کے پانی، بجلی اور گیس کے بل وصول نہیں کیے جائیں گے۔ اسکولوں کو فیسوں میں اپریل اور مئی تک 20 فیصد رعایت دینے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم اسکولوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اپنے اخراجات تو جاری ہیں۔ اسکولوں کو اساتذہ و دیگر ملازمین کی تنخواہ تو دینی ہے۔ ان کی عمارتوں کے کرایے اور بجلی کے بل بھی تو ادا ہونے ہیں۔ اس پیکیج میں پرائیویٹ اسکولوں خصوصاً پانچ ہزار تک فیس لینے والے اسکولوں کے لیے بھی رعایتی پیکیج دیا جانا چاہیے۔ کرایہ نہ لینے کے معاملے میں بھی سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا، بعض گھروں میں لوگوں کا گزر بسر ہی مکان کے کرایہ پر ہوتا ہے خواہ وہ پچاس ہزار سے کم ہو یا اس سے زیادہ ان کا تو واحد سہارا کرایہ ہے۔ حکومتوں کی جانب سے کرایہ نہ لینے کے اعلان یا مشورے کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں نے ازخود فیصلہ کرتے ہوئے کرایہ روک بھی لیا ہے۔ کرایہ کا بزنس کرنے والے تو متاثر نہیں ہوں گے لیکن پوری زندگی کا سرمایہ ایک مکان ہو اور اس کے کرایے پر گزارہ ہو تو ایسے لوگ حکومتی ریلیف کے اعلان سے پریشان بھی ہو جائیں گے۔ مرکزی اور سندھ حکومت کی جانب سے ریلیف پیکیج بہرحال ایک اچھا اقدام ہے۔