عمران خان کابینہ میں طاقتور اضافہ

487

وزیراعظم عمران خان نیازی نے ایک اور یو۔ٹرن لیتے ہوئے وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر تبدیلی کردی ہے لیکن اس مرتبہ تبدیلی بڑی معنی خیز ہے۔ سابق ڈائرکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو فردوس عاشق اعوان کی جگہ معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کردیا ہے۔ تاہم اتنا بھاری بھرکم تقرر کرنے کے بعد وزیراعظم نے ایک وفاقی وزیر اطلاعات کا تقرر بھی کیا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز اب وفاقی وزیر اطلاعات ہیں۔ کافی عرصے سے ملک وفاقی وزیر اطلاعات کے بغیر چل رہا تھا شاید اب کابینہ کا کورم پورا ہو جائے گا۔ لیکن یہ بات اب زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ حکومت کو کون چلا رہا ہے اور چونکہ اب اس کے وزیر دی گئی لائنوں پر نہیں چل پا رہے تھے اس لیے براہ راست فوجی کمک بھیج دی گئی۔ کسی ریٹائرڈ جنرل کا سیاست میں آنا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن عمران خان کی پارٹی اس کا الیکشن، ان کا وزیراعظم بننا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع وغیرہ یہ سب چیزیں اس بات کی جانب اشارہ کر رہی تھیں کہ حکومت کس نے بنائی اور کون چلا رہا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کے سیاستدانوں نے بھی شبلی فراز کے تقرر کو وزیراعظم کا درست اقدام قرار دیا ہے اور یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ سیدھی بات کرتے ہیں، ان کی طبیعت میں ٹھہرائو ہے۔ گویا فردوس عاشق اعوان سیدھی بات نہیں کرتی تھیں۔ ویسے جب شبلی فراز بولنے پر آئیں گے تو اپوزیشن کی طبیعت بھی صاف ہو جائے گی۔ وزیر اطلاعات کا تو ہمارے ملک میں کام ہی حکومت کی غلطیوں کو چھپانا ہوتا اور اپوزیشن پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ یہ دونوں کام شبلی فراز کریں گے۔ جہاں تک ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پر الزامات کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کی تردید کردی۔ بس یہ کافی ہے کہ کسی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ اور فارنزک رپورٹ کا بھی تو کوئی فائدہ نہیں ہونا لہٰذا اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میرے اوپر لگائے گئے الزامات لغو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ وفاقی کابینہ میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم اور شبلی فراز کا ایک ہی جگہ تقرر چند روز میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ اگر شبلی فراز نہایت فدویانہ طریقے سے کام کریں گے تو معاملہ یوں ہوگا کہ وفاقی وزیر معاون خصوصی کے ماتحت رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کتنی جمہوریت باقی ہے اب اس حکومت میں… ایک معاملہ اور ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے اور وہ ہے پاکستان کے صحافیوں کا مسئلہ۔ کئی صحافتی اداروں کے اشتہارات کے واجبات حکومتی ایجنسیوں کے ذمے ہیں۔ پہلے فواد چودھری سے اس حوالے سے مختلف تنظیموں اور یونینوں نے مذاکرات کیے انہوں نے معاملات بہتر کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ تبدیل کر دیے گئے پھر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس منصب پر آئیں ان کو بہت سی معلومات فراہم کی گئیں ان کی جانب سے میڈیا انڈسٹری کے واجبات کے حوالے سے اعلانات کیے گئے ان اعلانات پر عمل کا وقت آنے سے قبل ان کی چھٹی ہو گئی۔ اب نئے وزیر اطلاعات آئے ہیں ان کے ساتھ ان سے زیادہ وزنی اطلاعات کے معاون خصوصی ہیں۔ ان دونوں کو اگر سب کچھ معلوم ہو تب بھی صحافتی تنظیموں اور یونینوں کو نئے سرے سے سمجھانا ہوگا اور یہ سمجھانے کے لیے لاک ڈائون ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل تو یہ باتیں نہیں کی جاسکتیں۔ بڑے صحافتی اداروں نے ان واجبات کی بنیاد پر ملازمین کو بیروزگار بھی کیا ہے اور تنخواہوں میں کٹوتی بھی… یعنی اس کا نقصان بھی عام میڈیا ورکر بھگتے گا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وزارت اطلاعات میں سابق فوجی افسر کی شمولیت اور جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کے کیس میں بھی کوئی تعلق ہے۔ اس کا فیصلہ آنے والے واقعات اور حالات کریں گے۔