لائق تحسین و قابل تقلید

315

برادر ِ محترم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ اپنے شعبے میں کیا صوبے اور ملک بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ کل وقتی پیشہ طب سے جڑے رہے ہیں۔ کوئٹہ کے سول اسپتال میں 08اگست 2016 کو وکلا پرہونے والے خود کش حملے کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ سماجی و علمی سرگرمیوں میں فعال ہوئے۔ اس سانحے میں ساٹھ وکیل شہید ہوئے اور ایک بڑی تعداد وکیلوں کی زخموں سے چُورہو گئی۔ بڑے نامور، ماہر و زیرک اور نوجوان وکیل پیوند خاک ہو گئے۔ معروف قانون دان و متحرک وکیل رہنما باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ بھی شہداء میں شامل ہیں۔ باز محمد کاکڑ شہید ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کے چھوٹے بھائی تھے۔ چناںچہ اس روح فرسا اور ناقابل فراموش سانحے کے بعد ڈاکٹر لال محمد کاکڑ نے باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ کے نام سے فائونڈیشن قائم کر لی۔ اس طرح علمی، رفاعی اور سماجی طور پر بھی بیدار ہوئے۔ مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں سیمینار منعقد کروائے، کتب میلے سجائے۔ یوں وکیل شہدا کی یاد میں ’’شہداء آٹھ اگست پبلک لائبریری‘‘ قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ یہ لائبریری شہید باز محمد ایڈوکیٹ فائونڈیشن کے تحت قائم ہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر لال محمد صاحب نے آن لائن مذاکرے میں شرکت اور بولنے کی دعوت دی۔ جس کا اہتمام شہداء آٹھ اگست لائبریری میں کیا گیا تھا۔ موضوع کلام ’’آن لائن تعلیم اور لائبریری‘‘ تھا۔ مکرمی عبدالصبور کاکڑصاحب (سیکرٹری ماحولیات بلوچستان) بھی مدعو تھے۔ ڈاکٹر لال محمد کاکڑ خود بھی شریک گفتگو تھے۔ طالبات وطلبہ موجود تھے۔ طویل گفتگو ہوئی، آن لائن سوالات بھی پوچھے گئے۔ یہاںمجھے خوشگوار حیرت یہ بھی ہوئی کہ ڈاکٹر لال محمد نے ڈیجیٹل لا ئبریری کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ فی الوقت ڈیجیٹل لائبریری میں دس کمپیوٹرز کی سہولت میسر ہے۔ لائبریری حسب استطاعت معیار پر قائم ہے۔ طالبات کے لیے الگ کمرہ مختص ہے۔ جہاں ایک وقت میں بیس طالبات کے بیٹھنے، کتب بینی، امتحانات کی تیاری اور ریسرچ ورک کی سہولت موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمت ہے کہ وہ تنہا اس قدر بھاری ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ اگرچہ چند کتب لائبریری کو ہدیہ بھی ہوئی ہیں۔ مگر ضرورت مزید کتابوں کی ہے، اخراجات بھی زیادہ ہیں یعنی عمارت کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز اور دوسرے لوازمات کی مد میں کوئی تین لاکھ روپے ماہانہ اخراجات ہیں۔ یقینا فی الوقت یہ سارا بوجھ ڈاکٹر لال محمد کے شانوں پر ہی ہے۔
مجھے مسرت ہوئی کہ وبا کے ان کٹھن ایام میں طلبہ و طالبات کا لائبریری آنا جانا رہا۔ میرے ذہن میں میکانگی روڈ کی صادق شہید پبلک لائبریری و کلب، کاسی روڈ کی پبلک لائبریری و کلب کی یاد تازہ ہوگئی۔ جہاں محدود پیمانے پر ورزش اور کھیل کا سامان بھی ہوا کرتا تھا۔ علاقے کے نوجوان باقاعدگی سے جاتے۔ جنہیں مثبت سرگرمیوں کا کسی حد تک ماحول میسر تھا۔ یہ لائبریریاں و کلب اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ چناںچہ افلاس کے اس دور میں اگر ڈاکٹر لال محمد کاکڑ جیسے تعلیم و کتاب دوست اور نوجوان نسل کے خیر خواہ شہری معاشرے کے بنائو میں مال و وقت کے ساتھ جہد و مسا عی میں لگے ہیں، تو کیا معاشرے کے اُن صاحب حیثیت افراد اور بڑے بڑے تاجر حضرات کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اس طرح کے علمی و تعلیمی گہوارے کو اپنے تعاون سے مہمیز دیں۔ وکلا اور ان کی تنظیموں کی جانب سے اس میموریل لائبریری کو بڑی حد تک سہارا مل سکتا ہے۔ سرِدست سرکار کی توجہ و عنایت کی ضرورت ہے۔ تاکہ شہداء آٹھ اگست لائبریری جو اب ڈیجیٹلائز ہو چکی ہے خود کار ہو سکے۔ بلا شبہ اس کے اثرات بڑے دورس ثابت ہوں گے۔ گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی وکیلوں کے خاندان سے ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو اس لائبر یری کے لیے قطعہ ارضی مختص کر سکتے ہیں، بلکہ عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈ کا اجرا بھی کارِ گراں نہیں ہے۔ ڈاکٹر لال محمد کاکڑ کی یہ پیش رفت تحسین و ستائش کے لائق ہے۔ یقینا اِن کا یہ قدم قابل تقلید ہے۔
یہاں ذکر نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی کا بھی کرتے ہیں۔ جن کی قبائلی و سیاسی معمولات ودلچسپیاں اپنی جگہ، ساتھ ہمہ وقت کسی نہ کسی سماجی و معاشرتی و علمی سرگرمی میں بھی مشغول و مصروف رہتے ہیں۔ نوابزدہ حاجی لشکری رئیسانی، صاحب مطالعہ، کتاب بین و کتاب دوست انسان ہیں۔ ذاتی ذخیرہِ کتب جامعات، درس گاہوں اور لائبریریوں کو ہدیہ کر چکے ہیں۔ اب ان کا معمول کتابوں کا مطالعہ بعد ازاں لائبریریوں کو ہدیہ کرنا ہے۔ ان کٹھن ایام میں نوابزادہ کو تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کی فکر دامن گیر ہے۔ ان مریض بچوں کو خون خود بھی عطیہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان پیس فورم کے تحت ان کے صاحبزادے، بھتیجوں اور دوسرے احباب و خیر خواہوں نے بھی خون عطیہ کیا ہے۔ یہ کارِ خیر تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ گویا عوام کو اس اہم پہلو پر متوجہ کرنے اور آگے بڑھنے کی شہ و ترغیب د ینے کی سعی میں لگے ہیں۔ یعنی یہ کہ عوام مشکل کی اس گھڑی میں تھیلی سیمیا کے عارضے میں مبتلا بچوں کو فراموش نہ کریں کہ انہیں ہر ممکن راہ سے خون کے عطیات پہنچا تے رہیں۔ ربّ کریم ڈاکٹر لال محمد کاکڑ اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کو جزائے خیر دے۔ یقینا مجھ سمیت شہر کے ہر باسی کو خیر اور رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے کہ اس وقت اس کی ضرورت بڑھ کر ہے۔