سندھ حکومت مذہب کے بجائے کورونا کا مقابلہ کرے

480

حکومت سندھ ایک جانب تو لاک ڈائون کے متاثرین کے لیے ریلیف پیکیج جاری کر رہی ہے لیکن دوسری جانب مذہب کا نام لے کر کورونا سے مقابلے کی مہم بھی جاری ہے۔ کورونا سے بچائو کے لیے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ سماجی فاصلہ یا بڑے اجتماعات سے گریز ہے۔ لیکن حکومت سندھ اس بارے میں جتنے احکامات جاری کرتی ہے ان کا نشانہ صرف اسلام ہوتا ہے۔ اس کے حکم میں مذہب، تبلیغی جماعت، مساجد میں نماز تراویح اور مذہبی جلسے جلوس کا ذکر ہوتا ہے۔ منگل کے روز بھی حکومت سندھ کے حکمنامے میں یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران کسی بھی قسم کے مذہبی اجتماعات اور مجالس اور جلوس نکالنے پر پابندی ہوگی۔ مساجد میں شبینہ اور ختم القرآن کے اجتماعات بھی منعقد نہیں کیے جائیں۔ اس حکم نامے میں یوم شہادت حضرت علیؓ کے جلوس اور مجالس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے اعتبار سے کسی بھی قسم کے اجتماع پر پابندی کا نوٹیفکیشن ہونا چاہیے نہ کہ مذہبی کا لفظ استعمال کیا جائے۔ ایک جانب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے میں یہ رویہ ہے اور دوسری جانب جرمنی میں مساجد کھولی جا رہی ہیں۔ ٹورنٹو میں لائوڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دی جا رہی ہے۔ دُنیا میں کہیں بھی پابندیاں لگاتے وقت مذہب کا نام نہیں لیا جا رہا۔ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ بڑے اجتماعات سے گریز کیا جائے۔ لیکن سندھ حکومت کی منطق پوری دُنیا سے الگ ہے۔ پاکستان بھر میں وفاقی حکومت کچھ اعلان کرتی ہے اور صوبائی حکومت کچھ اور۔ وفاق سے آگے بڑھ کر لاک ڈائون بھی سندھ نے پہلے کیا اور توسیع بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر 23 مئی تک سندھ میں لاک ڈائون میں توسیع کی گئی ہے۔ اب جمعہ کو وزیراعلیٰ سندھ وزیراعظم کو اعتماد میں لیں گے۔ لیکن کیا کریں گے۔ کیا لاک ڈائون نرم یا ختم کر دیں گے یا اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں گے۔ معاملہ فیصلوں پر نظرثانی کا نہیں ہے رویے کا ہے۔ پوری حکومت کا رویہ مذہب بیزاری پر مبنی ہے۔ اس کی اصلاح کرکے کورونا کا مقابلہ کریں۔ ساری دُنیا میں لاک ڈائون نرم کیا جا رہا ہے جبکہ وہاں لاک ڈائون بھی اپنے اصل معنوں میں نافذ تھا اور سندھ میں 23 مئی تک نافذ کر دیا گیا ہے۔ حقیقی لاک ڈائون تو 14 یا 28 دن بھی کافی ہوتا۔ فرانس، اسپین، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں نرمی کر دی گئی ہے۔ حرمین شریفین عام نمازیوں کے لیے کھولے جا رہے ہیں تو سندھ میں آخر کیا خاص بات ہے۔ پہلے تو حرمین کا حوالہ دیا جاتا تھا اب تو وہاں بھی مساجد کھول دی گئیں۔ صرف احتیاطی تدابیر کی بات کی گئی ہے۔ حکومت سندھ کی شدت کا تو یہ مطلب سامنے آ رہا ہے کہ سندھ میں بیماری کی شدت زیادہ ہے اور حکومت چالیس روزہ لاک ڈائون کے باوجود بیماری پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ مذہب پر الزام لگانے کے بجائے حکومت سندھ اپنی ناکامی کا اعتراف کرلے۔