مغرب زدہ اخلاقی قدروں کا علمی تجزیہ (آخری حصہ)

389

وقاص احمد
شراب پینا تمام ہی مذاہب میں حرام ہے۔ عقل پرستوں نے کہا یہ تو انسانی آزادی کے خلاف ہے سو شراب کی کھلی آزادی دی گئی بعد میں جب شراب کی وجہ سے خاندان کے اندر عورتوں پر تشدد بڑھا، مردوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت تیزی سے خراب ہونے لگی تو ایک تحریک نے جنم لیا جس کی وجہ سے 1920 سے لیکر 1933 امریکا میں شراب کی سخت قانونی پابندی رہی۔ لیکن ملاحظہ فرمائیںکہ 1933 میں صرف اس وجہ سے کہ کاشت کاروں کا نقصان ہورہا ہے، شراب بنانے کی صنعت بند ہونے سے سرمایہ کاری نہیں ہورہی، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور معاشی ڈیپریشن کے دور میں امریکی حکومت کو ٹیکس کی ضرورت ہے، شراب سے پابندی اٹھا لی گئی۔ غور کیا آپ نے! سرمایہ داروں اور بزنس مینوں کا کمال!۔ عورت پر ظلم، صحت کے مسائل کہاں غائب ہوئے کسی کو پتا چلا آج بھی امریکا میں گھریلو تشدد عروج پر ہے اور شراب نوشی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ امریکا میں 2018 میں جو چھتیس ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوئے ان میں سے تقریباً گیارہ ہزار وہ لوگ تھے جن کو نشے میں چور ڈرائیوروں نے مارا۔ سگریٹ نوشی کی انڈسٹری کی بھی یہی داستان ہے۔ بعض یورپی ملکوں میں تو سگریٹ کی کمپنیوں نے اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے حکومت کو یہ پیشکش کردی کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے یا اس پر پابندی لگانے سے لوگوں کی مدت عمر بڑھ جائے گی اور سوشل سیکورٹی اور علاج معالجے میں ان پر زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔ جبکہ تمباکو نوشی کی آزادی سے حکومت کو ایک تیر سے دو شکار مل جائیں گے۔
کیا اب اوپر بتائی گئی مثالوں کے بعد بھی راقم کو بتانا پڑے گا کہ عورتوں کی آزادی کے نام پر انہیں بغیر کسی مجبوری گھر سے باہر نکالنے، ان کے لباس کو کم سے کم کرنے، ان کو اسٹیج، ڈراموں، فلموں کی رونق بنانے، نائٹ کلبوں کی شمع بنانے کے بعد زنا بالرضا کو قانونی تحفظ دینے میں سرمایہ داروں، کاروباریوں، صنعت کاروں، تاجروں اور پریس اور میڈیا مالکان کی کیا کیا منصوبہ بندیاں اور چالاکیاں پوشیدہ ہیں۔ یہی چالاکیاں جن کو دور جدید کی اخلاقی ترقی کہا جاتا ہے اصلاً نفسانی خواہشات، مرغوبات، دولت اور پیسے کی ہوس کے گرد گھوم رہی ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں بہت سی اخلاقی قدروں اور روایات کو نفع نقصان کے دور رس نتائج کے اندازوں اور پیمانوں ہی سے دیکھا جاتا ہے اور ساتھ میں حق کے خلاف علمی مقابلے کے لیے اخلاق اور انسانی حقوق کے دجالی مفاہیم و مطالب کی پرزور تبلیغ کی جاتی ہے۔ تبھی کسی چیز کے بے انتہا مضر ہونے کی مصدقہ اعداو و شمار ملنے کے بعد بھی بہت مشکل ہی سے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی جاتی ہے، برسوں سے ہزاروں لوگوں کے مرنے کے بعد ہی شراب نوشی کے خلاف نہیں بلکہ صرف شراب کے نشے میں ڈرائیونگ کرنے کے خلاف قانون بنایا جاتا ہے۔ سائنس سے اگر پتا چل جائے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں خطرناک ہیں تو پابندی لگادی جاتی ہے۔ لیکن جب امریکا کے محکمہ انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پیش کردہ اعداو و شمار عورتوں، بچوں، خاندانوں سے متعلق دل دہلا دینے والے حقائق چیخ چیخ کربیان کر رہے ہوں تو مجال ہے مفاد پرست ٹولہ و اشرافیہ آزادی نسواں اور آزاد جنسی تعلق کے حوالے سے پریشان ہو۔ یا موجودہ ماحول اور قوانین پر دو بارہ سوچ و بچار اور نظر ثانی پر کسی کو غور بھی کرنے دے۔ عقل و شعور کو دیوانہ بنادینے والی مارکیٹنگ، انٹر ٹینمنٹ اور میڈیا کے سامنے اس توتی کی آواز کون سنے گا۔
اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے والے دائیں سے لیکر بائیں، تمام سوچوں کے حامل لوگوں سے گزارش سے کہ وہ یورپ کے دور تنویر (Enlightenment Era) کا انطباق اور موازنہ مسلم معاشروں اور خاص کر پاکستان میں کرنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔ نئی تہذیب کی اخلاقی قدروں کی باطل اساسات کو پہچانیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشروں میں آج بہت سارے اخلاقی اور سماجی مسائل ہیں لیکن ان مسائل کا حل یورپی اور امریکی اقوام کی عقل پرست، ملحدانہ، مادہ پرستانہ، سرمایہ دارانہ سوچ اور سیکولر علم سے جنم لینے والی نئی تہذیب اور اخلاقی قدروں میں نہیں بلکہ ماضی بعید کے مسلم معاشروں کی شاندار و عظیم زمانے میں ملے گا جس کا منبع اور سرچشمہ قرآن ِ حکیم اور سیرت و سنت رسولؐ تھا۔