یکم مئی اور مزدور

560

شمس الرحمن سواتی
ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم مئی یوم مزدور کے طور پر منایا جارہا ہے، لیکن انتہائی غیر معمولی حالات میں جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈائون ہے اور اس سے سب سے زیادہ مزدور طبقہ متاثر ہوا ہے، ایک اندازہ کے مطابق کم و بیش چھ کروڑ مزدور انفارمل سیکٹر میں ہیں جیسے منڈی، بازار، کھیت، تعمیرات، فشریز، کان کن، گھریلو، ہنرمند، ہوٹلوں، دکانوں میں کام کرنے والے اور بھٹہ مزدور ان پر ملک کے لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، انہیں بیگار کیمپ جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور فارمل سیکٹر میں بھی ایک کروڑ مزدوروں کو ٹھیکیداری نظام اور یومیہ اجرت کی وجہ سے لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے، اس طرح اس ملک کے پونے سات کروڑ مزدور بیگار کیمپس میں ہیں، یہ پہلے ہی انتہائی کم تنخواہ پانے والے تھے، اتنی کم کہ جس میں ایک ہفتہ کا راشن فراہم کرنا ممکن نہیں، خوراک کی کمی کی وجہ سے خود یہ مزدور ہی نہیں ان کے بچے بھی جسمانی اور ذہنی طور پر بہت کمزور صحت رکھتے ہیں یہی نہیں ہے ان کے بچے تعلیم سے محروم اور ان کے مریض علاج سے محروم ہیں اور اکثریت کے سروں پر چھت کا سایہ بھی نہیں ہے اوپر سے اس وبا نے انہیں فاقہ کشی میں مبتلا کردیا گیا ہے ، یہ وبا مزدوروں کے لیے فاقہ کشی کے ذریعے موت کا پیغام لے کر آئی ہے۔
خود وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کہا ہے کہ پاکستان میں 80فی صد مزدور رجسٹرڈ ہی نہیں اور ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لیبر کی رجسٹریشن کا انفارمل سیکٹر میں سرے سے کوئی نظام ہی نہیں ہے، یہ نتیجہ ہے اس ملک میں 73سال سے جاری سرمایہ داری، جاگیرداری نظام کا‘ کہ ملک میں پچاس فی صد آبادی غربت میں زندگی بسر کررہی ہے، سرمایہ دار کو اپنے کارخانے، کاروبار، بلڈنگز مشینری، بینک بیلنس بہت عزیز ہیں اور جاگیرداروںکو اپنی جاگیریں اور محلات سے غرض ہے، یہ مزدوروں اور کسانوں کی محنت سے عیاشیاں کررہے ہیں اور مزدور فاقوں سے مر رہے ہیں، بے گھر ہیں، مریض علاج سے محروم ، بچے تعلیم سے محروم اور خود مزدور طبقہ اپنے نمائندوں اور لیڈروںکی وجہ سے اپنی آواز سے محروم ہے۔
اس ملک میں ایک جمہوری منتخب پارلیمنٹ ہے، عدلیہ ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ ریسورس اور انسانی حقوق کی وزارتیں ہیں اور صوبوں میں محنت کی وزارتیں اور نیچے تک ایک پورا نظام قائم ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ کروڑوں مزدور اپنے حقوق سے محروم ہیں، اس لیے کہ یہ وزارتیں سرمایہ داری نظام کے ظلم کی مدد کرنے کے لیے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ جب بھی لیبر قوانین میں ترامیم کی گئیں قانون کو پہلے سے بدتر بنادیا گیا مثال کے طور پر اسٹینڈنگ آرڈینس 1968 میں ترمیم کرکے ورکرز کی تعریف میں ٹھیکہ داری سسٹم ڈال دیا گیا ہے اور اس طرح بیگارکو قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے۔
ملک میں سیکڑوں انڈسٹریل اسٹیٹ میں ہزاروں انڈسٹریز لگی ہوئی ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں اور کوئی ایک بھی یونین رجسٹر نہیں ہونے دی جاتی جب کہ ہر ضلع میں لیبر ڈیپارٹمنٹ جو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور ویلفیئر کے لیے قائم ہے موجود ہے۔ لیبر کورٹس ہوں یا لیبر اپلیٹ ٹربیونل ہوں یا این آئی آر سی سب میں سال ہا سال سے لیبر کے مقدمات زیر التواء ہیں چونکہ مالکان اور انتظامیہ کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور وہ ان کو خرید سکتے ہے اور مزدور کے پاس وسائل نہیں ہوتے اس لیے ان کی شنوائی نہیں ہوتی اور اس طرح یہ نظام ظلم کی مدد کررہا ہوتا ہے۔
ملک کے رقبے کے لحاظ سے بڑے اور پسماندہ صوبے‘ بلوچستان میں ٹریڈ یونینز ختم کردی گئیں، پنجاب میں لیبر انسپیکشن پر پابندی لگادی گئی ہر طرف خاموشی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے میگا کرپشن ہوئی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ مزدوروں کی فلاح کے فنڈز ہیںاور انہیں یتیم کا مال سمجھ کر لوٹا گیا ہے، کارخانہ دار چاہے تو کنٹریبیوشن دے چاہے تو نہ دے‘ لیبر کالونیاں بنائی جاتی ہیں اس میں خورد برد ہوتا ہے انتہائی گھٹیا تعمیرات ہوتی ہیں، اس کے مکانات مزدوروں کو الاٹ کرنے کے بجائے، حکمران پارٹیاں اپنے کارکنوں کو نوازتی ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
کوئلے کی کانوں میں ہر سال سیکڑوں مزدور صرف اس لیے دب کر مر جاتے ہیں کہ انہیں حفاظتی آلات مہیا نہیں کیے جاتے، انسانی المیہ دیکھیں کہ ان کے لیے کمپنسیشن بھی نہیں، بیوائیں اور بچے مارے مارے پھرتے ہیں اور ان حادثات اور اس عظیم انسانی نقصان کے بعد بھی حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے، ہر چھوٹے بڑے شہر میں بلدیاتی نظام قائم ہے، لیکن صفائی کے لیے عملے کی مطلوبہ تعداد کہیں بھی نہیں ہے اور بہت کم سینٹری ورکرز پر ساری آبادی کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، اور نہ تو ان کی تنخواہوں کا کوئی اسٹریکچر ہے انہیں حفاظتی لباس یا سامان مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی زندگیاں اور صحت بجانے کا کوئی انتظام ہے یہ بے بس لوگ ظلم کا نظام بھگت ر ہے ہیں۔
وزیراعظم‘ مدینہ کی اسلامی ریاست کی بات کرتے ہیں مدینے والے آقاؐ نے فرمایا تھا کہ جو تمہارے ماتحت ہیں تمہارے بھائی ہیں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ مت ڈالو انہیں کھانا اور وہی لباس دو جو تمہیں حاصل ہے، پہلے خلیفہ سیدنا ابو بکر ؓ فرماتے ہیں میری وہی تنخواہ ہوگی جو ایک عام مزدور کی ہے، اگر اس میں میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی تنخواہ بڑھادوں گا۔ دوسرے خلیفہ سیدنا عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دجلہ اور فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا ذمے دار حکمران ہوگا۔
وزیراعظم کا احساس پروگرام قابل تحسین ہے، وزیراعظم مزدوروں کی عدم رجسٹریشن کی بات بھی بڑے دکھ سے کرتے ہیں، وزیراعظم‘ آپ حکمران ہیں، صاحب اختیار ہیں اقدامات کریں نوحہ تو ہم کرہی رہے ہیں۔ لیبر قوانین اور سماجی تحفظ قوانین کو بہتر بنائیں، ان کا جھکائو مالکوں کی طرف ختم کریں، انفارمل سیکٹر یومیہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے والے تمام مزدوروں کو ان قوانین کے دائرے میں لائیں مزدوروں کو فاقہ کشی سے بچائیں، بیماریوں سے بچائیں ان کے علاج کے لیے ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ کریں، انہیں اتنی تنخواہ اور پنشن دیں کہ یہ عزت کی زندگی بسر کرسکیں، ان کا گزر بسر ہو، انہیں چھت فراہم کریں، مزدور کو کارخانے میں اور کسان کو کھیت میں حصہ دار بنائیں وطن عزیزکی ترقی اور خوشحالی کے لیے مزدور اور کسان کا صحت مند، خوشحال ہونا اور مطمئن زندگی بسر کرنا ضروری ہے۔ ٹریڈ یونینز کے نمائندوں اور لیبر لیڈر شپ کو اس موقعے پر یوم خندق کو یاد کرنا چاہیے جب سیدنا محمدؐ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودی تھی۔ مزدوروں اور کسانوں کے اندر اس شعور اور آگاہی کو پیدا کرکے انہیں رسول اکرمؐ کے انقلاب سے روشناس کرایا جائے تاکہ اس ظالمانہ سرمایہ داری جاگیرداری نظام سے نجات مل سکے۔