روزہ کے مقاصد

569

حکیم محمد سعید
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ: جو شخص جھوٹ بولنا اور لغو کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ روزے کے نام پر اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ دین اسلام کا ایک رکن روزہ بھی ہے، جو تمام دیگر عبادات کی طرح ہماری عملی اور معاشرتی زندگی پر اپنے حقیقی نتائج کے ظہور کا تقاضا کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ وہ اہم عبادتِ مجاہدہ ہے جس سے دلوں کا تزکیہ ہوتا ہے اور نیک اعمال کی صلاحیتوں کو جِلا ملتی ہے۔ لیکن ہم روزے کا جو تصور رکھتے ہیں وہ اس قدر محدود اور نامکمل ہے کہ مہینے بھر کی بھوک اور پیاس کے باوجود اس کی حقیقی برکات سے ہمارا دامن خالی رہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ روزے کے مقصد سے ہم آشنا نہیں ہیں اور اگر ہیں تو کم ازکم اس کے مقصد کو اپنے عمل سے ہم آہنگ نہیں کرتے۔
رسول اکرمؐ نے اس حدیث میں روزے کے جوہری مقصد کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ اخلاق و عمل کی تمام برائیوں کو چھوڑنے کا اہتمام بھی اس میں شامل ہے۔ ورنہ روزے کا عمل نامکمل رہے گا۔ ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ ادھورے اور نامکمل عمل سے ہم وہ فوائد و ثمرات کس طرح حاصل کر سکتے ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے لفظِ تقویٰ سے کیا ہے جس کی وسیع معنوں میں برائیوں سے بچنا بھی ہے۔ اس حدیث میں رسول اکرمؐ نے روزے کے منافی گناہ کا مثالاً ذکر فرمایا مگر یہ دو مختصر اور اتنے سنگین گناہ ہیں جن سے ساری انفرادی اور اجتماعی بداعمالیوں کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جھوٹ، قول و عمل کی ہر اس صورت کا احاطہ کرتا ہے جو خلافِ صدق ہو۔ جو جھوٹ بول سکتا ہے وہ دوسرے سارے بڑے گناہ کر سکتا ہے۔ کسی ذمے داری کو کبھی صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا۔ اسے نہ اپنے حق کی پروا ہوگی نہ اللہ کے حقوق کا اسے خیال آئے گا۔ اس میں کردار کی وہ تمام کمزوریاں اور خامیاں پیدا ہو جائیں گی جن سے خود اس کو، اس کے گھر والوں کو، ہمسایوں کو، اس کے معاشرے کے تمام افراد کو برابر نقصان پہنچتا رہے گا۔ اور وہ ہر ایک کی محبت و ہمدردی سے محروم ہو جائے گا اور بڑی بات یہ ہے کہ جھوٹ بول کر وہ خود اپنے عمل صوم کی سچائی کی تردید کر رہا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کا حکم اللہ کے لیے بجا لا رہا ہے۔ گھر، بازار، دفتر، کاروبار ہر جگہ جھوٹ کا سیاہ دھواں چھوڑتا ہوا جب افطار کرنے کے لیے بیٹھتا ہے تو اس وقت بھی جھوٹ بولتا ہے کہ اے اللہ میں نے تیری رضا کے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر توکل کیا اور تیرے بخشے ہوئے رزق سے افطار کیا۔ جھوٹ اور مکر سے حاصل کیے ہوئے رزق کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک جسارت بلکہ ڈھٹائی ہے۔
ہم اگر اپنے روزوں کو جھوٹ سے نہیں بچا سکتے تو رسول کریمؐ نے واضح الفاظ میں یہ ارشاد فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف کھانا پینا چھوڑنا مطلوب نہیں ہے، جھوٹ اور اس کی ساری اقسام سے بچنا بھی مطلوب ہے۔ روزہ رکھنے والا نہ جھوٹ بولے، نہ جھوٹ لکھے، نہ جھوٹے معاملات کرے، نہ جھوٹ پھیلائے۔ ہر ایک کے ساتھ صدق قول و عمل سے پیش آئے۔ اس ضمن میں ایک دوسری بات اور بھی نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمائی کہ روزہ دار کھانا پینا ترک کرنے کے ساتھ لغو بات سے بھی بچے۔ لغو بات کیا ہے؟ صاف اور سیدھی بات تو یہ ہے کہ رمضان میں بھوک پیاس کو بھولنے کے لیے جو عمل ہمارے معاشرے میں یہ سمجھ کر کیا جاتا ہے کہ یہ گناہ نہیں یا اس میں کوئی مضائقہ نہیں، وہی لغو بات ہے یعنی دن کو زیادہ سے زیادہ سوکر گزارنا یا گپ شپ میں وقت گزارنا یا جھوٹے قصے، جھوٹی کہانیاں پڑھنا اور لکھنا، تاش کھیلنا، ٹیلی ویژن پر مزموم پروگرام دیکھنے میں وقت صرف کرنا، کھیل تماشے اور بے مقصد سرگرمیوں میں حصہ لینا، غیر ضروری سیر و تفریح، غرض وہ ساری غیرمثبت سرگرمیاں منافی صوم ہیں جن کا کوئی مقصد نہ ہو اور اگر ہو تو صرف یہ کہ کسی طرح بھوک پیاس کو بھول جائیں۔ ہم اس تکلیف کو بھولنے کے لیے خود غرضی اور ہوس پرستی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور رمضان کی برکتیں ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اگر ہم روزے کے ہمہ گیر مقصد تزکیہ پر نظر رکھیں تو یہ روزہ واقعی ہمارے لیے ظاہری و باطنی، انفرادی و اجتماعی انقلاب حال کا ذریعہ بن جائے گا۔ روح و جسم میں توانائی اور عمل و اخلاق میں رفعت پیدا ہو جائے گی۔