پیٹرولیم پر سرکاری ڈکیتی

440

اس کو سرکاری ڈکیتی نہ کہیں تو اور کیا کہا جائے۔ ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرکے عوام پر احسان کیا گیا، دوسری طرف پیٹرولیم لیوی میں 300 فیصد تک اضافہ کرکے لوٹ لیا گیا۔ گویا ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا۔ پیٹرولیم مصنوعات پر خاموشی سے ٹیکسز بڑھا دیے۔ رپورٹ کے مطابق پیٹرول پر 45 روپے 85 پیسے فی لیٹر ٹیکس اور لیوی عاید ہے۔ پیٹرول کی قیمت خرید 35.73 روپے اور قیمت فروخت 81.58 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ اس وقت دُنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتیں بری طرح گری ہیں۔ اس کا فائدہ عوام کو پہنچنا چاہیے تھا خاص طور پر اس لیے بھی کہ وزیراعظم عمران خان جب کنٹینر پر سوار تھے تو خود بتایا کرتے تھے کہ پیٹرول کی اصل قیمت اتنی ہے اور حکومت نے اس پر ظالمانہ ٹیکس عاید کر رکھا ہے، میں اقتدار میں آیا تو یہ کروں گا اور وہ کروں گا۔ لیکن اب خود بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ آٹا اور چینی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ انہی کے دور میں اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ عمران خان نے صحیح کہا تھا کہ مہنگائی بڑھنے کا مطلب ہے کہ حکمران چور اور نا اہل ہیں۔ اب اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کرنے کا بہت اچھا موقع تھا لیکن ڈکیتی کی واردات ہو گئی۔ جہاں تک مہنگائی اور حکمران کا تعلق ہے تو اس وقت ضرویات زندگی کی کونسی شے ہے جو مہنگی نہیں ہوگئی۔ آٹا مزید مہنگا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دالیں، پھل، گوشت، ادویات اور چینی مزید مہنگے ہو گئے جس کا بڑا تعلق رمضان کریم سے بھی ہے جس با برکت مہینے میں منافع خور ضرورت کی ہر شے مہنگی کر دیتے ہیں۔ لیکن بڑی ذمے داری حکومت پر عاید ہوتی ہے کہ اس کا کہیں کوئی کنٹرول ہی نظر نہیں آتا۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں برسوں سے قائم ہیں لیکن کیا کرتی ہیں، اس کا علم نہیں۔ بہتر ہے کہ یہ شعبہ ختم ہی کر دیا جائے۔ کبھی کبھی کوئی ٹیم جا کر چھاپا مارتی ہے اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر جرمانہ کر دیتی ہے، بس بات ختم۔ پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو حقیقی ریلیف دیں۔ تبدیلی لانے کے دعوے ہوا میں اڑ گئے۔ پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کا دعویٰ یہ ہے کہ عمران خان کا کوئی متبادل نہیں۔ اگر یہی آخری چوائس ہے تو اللہ خیر کرے۔ جہاں تک کسی متبادل کی بات ہے تو حرف آخر کوئی بھی نہیں، تبدیلی آنی ہوتی ہے تو اچانک آجاتی ہے۔ پاکستان میں تبدیلی لانیو الے عناصر کچھ اور ہیں۔ عمران خان اور ان کے حواری اگر عوام اور ملک کے لیے کچھ بہتر کام کر جائیں تو کسی کو اس سے غرض نہیں کہ بوم بسے یا ہمارہے۔ کسی بھی حکومت کی کاردگی کا پیمانہ عوام کی معاشی صورتحال ہے جو روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق بین الاقوامی صورتحال سے ہے لیکن ضروریات زندگی کی قیمتیں کنٹرول کرنا تو ہر معقول حکومت کی ذمے داری ہے جو ادا نہیں کی جارہی۔ وزارتیں بدلتے رہنے اور بیانات جاری کرتے رہنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔