امریکا پاکستان میں چین سے کیسے نمٹے؟

615

پاک چین اقتصادی راہداری کا ایک مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور اب اس منصوبے کے دوسرے مرحلے پر کام کے آغاز کی تیاریاں ہو رہی ہیں مگر امریکا کو اب بھی اس منصوبے کی ناکامی کے لیے کسی ’’معجزے‘‘ کی توقع ہے۔ امریکا بھارت اور افغانستان کو پوری طرح استعمال کرنے کے باوجود اس منصوبے میں کوئی بڑی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکا۔ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کے کئی مراکز تیار کیے گئے جن کے زیر اثر رنگ برنگی عسکریت نے جنم لے کر پاکستان کی ریاست کو اس منصوبے سے باز رکھنے کے لیے اپنا پورا زور ِ بازو صرف کیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اُلٹا یہ کہ امریکا کے لیے افغانستان میں مزید جمے رہنا ناممکن ہوگیا اور ایک طویل اور اعصاب شکن جنگ سے اُکتا کر اس نے رخت سفر باندھ لینے میں ہی عافیت جانی۔ اب وہ اپنی اس رخصتی کو ایک باعزت انداز اور خوبصورت نام دے کر واپسی کی راہ لے رہا ہے۔
امریکا پاکستان کو چین سے کاٹ کر بھارت کے ساتھ جوڑنے کی تدابیر کرتا رہا اور پاکستان اس عمل کے ردعمل میں امریکا سے دور ہوتا چلا گیا۔ اب امریکی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ میں امریکا کو بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ روایتی معاندانہ انداز میں کرنے کے بجائے ایک نئی حکمت عملی اختیار کرے۔ امریکی تھنک ٹینک کارنیگی سنگھوہا سینٹر فار گلوبل پالیسی کے چینی امور کے ماہر ڈینیل مارکی کی ایک اہم رپورٹ ’’امریکا کو پاکستان میں چین سے کس طرح نمٹنا چاہیے‘‘ کے عنوان سے منظر عام آئی ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا کہ سی پیک کی ناکامی سیاسی اور سفارت اعتبار سے ناممکن ہے۔ پاکستان کے لیے چین ایک اہم شراکت دار اور لائف لائن ہے جبکہ چین کے لیے سی پیک اس کے ترقیاتی ماڈل اور ایک اہم منصوبے کی برآمد کے لیے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ رپورٹ میں امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ اسے پاکستان میں چین کے اثر رسوخ کا جائزہ لیتے ہوئے بھارت اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے تنائو پر توجہ دینا چاہیے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان اور بھارت ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس موسم گرما دونوں کے درمیان بحران گہرا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں امریکا سے کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ روکنے کے لیے ممکنہ سفارتی شراکت دار کے طور پر چین کے کردار کی تعریف کرے۔ مارکی کے مطابق امریکا اس وقت بھارت کے فوجی حملوں کو دہشت گردی کے خلاف جوابی کارروائی کے زاویے سے دیکھتا ہے جبکہ چین ان حملوں کو پاکستان سے کئی گنا بڑے حریف کے حملوں کے خلاف بھرپور ردعمل پر زور دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ خطرناک ہے۔ امریکا اور چین دونوں کو نئی دہلی اور اسلام آباد سے سفارتی مصروفیات کو نئی طرز پر لے جانا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو امریکا کی سب سے اہم فوری تشویش کی وجہ ہونا چاہیے۔
اس طویل تحقیقی رپورٹ میں پاکستان اور چین کے سی پیک کے حوالے سے مدوجزر کا جائزہ لیا گیا ہے امریکا کو یہ باور کرایا گیا پاکستان میں اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ چین اور امریکا کی کھلی جنگ میں حصہ دار نہیں بننا بلکہ دونوں کے ساتھ معاملات طے کرنا ہیں جبکہ سی پیک پاک چین تعلقات کا ایک ٹکڑا ہے یہ تعلقات ہمہ گیر اور ہمہ جہتی ہیں۔ اس رپورٹ کا اہم حصہ وہ ہے جو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ہے۔ یہ بات چشم کشا ہے کہ امریکی تھنک ٹینک بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی جنگ کا خدشہ محسوس کر رہا ہے۔ امریکا کو اس پہلو پر چین کے ساتھ مل کر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ کنٹرول لائن اور دوسرے مقامات پر بھارت کی سرگرمیوں کو امریکا کی تائید حاصل ہے اور وہ ان کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف بھارت کا ردعمل سمجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس چین چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے ملک بھارت کی ایسی ہر جارحانہ کارروائی کا بھرپور جواب دے۔ اس سے لگتا ہے کہ امریکا اور چین پاک بھارت کشیدگی میں دو الگ پوزیشنیں لیے ہوئے ہیں۔ امریکا بھارت کے ساتھ اور چین پاکستان کا اتحادی۔ امریکا اور چین کو جنوبی ایشیا کو کسی ممکنہ تصادم سے بچانے کے لیے اس تضادکو کم کرنا چاہیے۔ امریکی تھنک ٹینک کی یہ رپورٹ امریکی اداروں اور پالیسی سازوں کے لیے خاصی اہمیت کی حامل ہے جس میں انہیں باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ سی پیک کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہوئے خطے میں دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ تصادم روکنے کے لیے اقدامات جاری رکھیں۔ امریکی حکومت اور پالیسی ساز اگر ڈینیل مارکی کی اس رپورٹ پر توجہ دیتے ہوئے جنوبی ایشیا کے اصل مسائل کے حل کا راستہ اپنائیں تو اس سے کشمیر جیسے اُلجھے ہوئے دیرینہ تنازع کے سلجھنے کے امکانات بھی روشن ہو سکتے ہیں۔ سی پیک چار سال سے روبہ عمل ہے اور اسے روکنے سے پاکستان اور چین کے درمیان سب کچھ ٹھپ نہیں ہوگا کیونکہ بقول مارکی یہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا محور اور کلید نہیں محض ایک جہت ہے۔