قمر محمد خان
جنرل سکریٹری جمعیت الفلاح
کورونا وائرس کی وجہ سے ہماری معاشی سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئیں، اس نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کو متاثر کیا اور اس کی وجہ سے ہماری مذہبی سرگرمیوں کو بھی پابند کر دیا گیا۔ کورونا وائرس وبا ہے، اللہ کا عذاب ہے یا بائیو لوجیکل دہشت گردی ہے یہ وقت بتائے گا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے اک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسانی تاریخ میں اس سے پہلے بھی کئی وبائی امراض پھوٹے اور پھیلے ہیں۔ جن میں لاکھوں انسانی جانوں نے زندگی کی بازی ہاری ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے کئی ممالک نے لاک ڈاؤن کیا ہے۔ معاشی سرگرمیاں مکمل بند ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی تعلیمی ادرے بند کر دیے گئے ہیں، سرکاری ونیم سرکاری ادارے اور بڑے کاروباری مراکز بند ہیں۔ یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہو گا اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ خدشہ ہے کہ مزید ایک ماہ ایسی ہی صورت حال رہے گی۔ چین، امریکا اور دیگر مغربی ممالک اپنی مادی ترقی پر نازاں تھے۔ انسانوں کو غلام بنانے کی تیاری، اللہ کے وجود کا انکار اور خدائی کا دعویٰ کرنے کی جرات کر رہی تھی۔ آج ایک وائرس کے سامنے بے بس ہے۔ اس سے نجات کے لیے جتن کر رہی ہے۔ اللہ اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ ابرہا کے لشکر کو ابابیل سے شکست دیتا ہے۔ نمرود کے لشکر کو چونٹیوں سے ہلاک کرتا ہے۔ اللہ ہم پررحم کرے۔ آمین
کورونا نے ہماری تمام سرگرمیوں کو پابند کر دیا۔ اس سال رمضان المبارک جن حالات میں آیا ہے وہ بہت مشکل اور پریشان کن ہیں۔ ہم اس ماہ مبارک کا شاندار استقبال بھی نہ کر سکے۔ استقبال رمضان کی تقریبات منعقد نہ ہو سکیں۔ ماہ صیام کی وہ رونق نظر نہیں آ رہی۔ نیکی کی تڑپ، عبادتوں کا شوق، تراویح کی نمازوں میں دورہ ترجمہ قرآن کا اہتمام، روزہ دار کا روزہ افطار کرانے کے لیے سڑکوں اور محلوں میں اجتماعی افطار کا انتظام اور دیگر سماجی سرگرمیاں۔
جمعیت الفلاح شہر کراچی کا قدیم علمی، تہذیبی و ثقافتی مرکز ہے۔ اس ادارے کی سرگرمیوں کو بھی کورونا نے متاثر کیا ہے۔ ہم استقبال رمضان کی تقریب نہیں کر سکے۔ یوم باب الاسلام پر سیمینار ہماری قدیم روایت ہے۔ یوم باب الاسلام کی تقریب ہم نہیں کرسکے۔ یہ ایام ہم اس لیے مناتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل کو اپنے مشاہیر کے کارناموں اور اپنی تاریخ کا علم ہو۔ ہمارے نصاب تعلیم سے اب ایک سازش کے تحت اسلامی تاریخ کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ہمارے جو اصل ہیروں ہیں جنہوں نے اسلام کی کوئی خدمت کی ہے۔ اُن کی جگہ بھانڈ اور میراثیوںکی برسی کا ٹی وی چینل اور دیگر ابلاغی ذرائع پر اہتمام کے ساتھ اعلان ہوتا ہے اور ان کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ہماری اسلامی تاریخ روشن مینار کی سی ہے۔ جس کی روشنی میں ہم اپنے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا ایک بڑا طبقہ اس تاریخ سے نا واقف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس تک وہ تاریخ ہی نہیں پہنچی جو مسلمانوں کے شاندار دور حکومت پر مشتمل ہے۔ آج 10 رمضان المبارک ہے۔ آج کا دن یوم باب الاسلام ہے۔ 712 عیسوی کو سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم سندھ دیبل کے حکمران راجا داہر کو شکست دیتا ہے اور اسلامی ریاست قائم کرتا ہے۔ جو برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ایک نئی اور شاندار تاریخ کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔
محمد بن قاسم کے سندھ پر حملہ کی وجہ بحری قزاقی کا واقعہ بنا۔ عربوں اور برصغیر کے دوسرے خطوں کے درمیان تجارت کئی عرصوں سے جاری تھی۔ یہ مسلمانوں کی فتوحات کا زمانہ تھا۔ جزیرہ یاقوت (سیلان) کے بادشاہ نے ایک بحری جہاز جس پر عورتیں اور بچے سوار تھے قیمتی تحفہ و تحائف کے ساتھ عرب کے حکمران ولید بن مالک کی جانب روانہ کیا۔ جو سمندری طوفان کی وجہ سے دیبل کی بندرگاہ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ بحری قزاقوں نے اس پر حملہ کردیا۔ عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا اور تمام سامان لوٹ لیا۔ بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف کو اس کی خبر ہوئی اُس نے دیبل کے حکمران راجا داہر کو پیغام بھیجا کہ بحری قزاقوں سے عورتوں اور بچوں کو رہا کرائے اور بحری جہاز، لوٹا ہوا سامان واپس کرایا جائے۔ راجا داہر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے 17 سالہ نوجواں سپہ سالار محمد بن قاسم کی قیادت میں ایک فوجی لشکر کو اس اہم کام کو انجام دینے اور راجا داہر کو سبق سیکھانے کے لیے سندھ کی طرف بھیجا۔ اسلامی لشکر نے دیبل پہنچتے ہی شہر کا محاصرہ کیا اور شہر کے گرد خندقین کھود دیں۔ محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ ایک بڑی منجنیق بھی تھی (غلیل) جس کا نام عروس تھا۔ دیبل شہر کے وسط میں ایک بہت بڑا بت خانہ تھا جس کی چھت پر ایک بہت بڑا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جو تیز ہوا میں شہر پر سایہ کرتا تھا۔ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ یہ جھنڈا جب تک لہرا رہا ہے انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی یہ ان کی حفاطت کرتا ہے۔ حجاج بن یوسف عراق میں بیٹھ کر دیبل کے حالات کی خبر رکھ رہا تھا جب اس کو اس جھنڈے کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے ہدایت دی کہ سب سے پہلے اس جھنڈے کو گرایا جائے۔ تاکہ باشندگان دیبل کے دل سے بت خانے کی شان و شوکت بھی نکل جائے۔ اور اس کے لیے منجنیق کو مغربی سمت نصب کیا جائے۔ منجنیق سے جھنڈے کا نشانہ لیا گیا جس سے وہ گر گیا۔ اب راجا داہر کی فوج شہر سے باہر آئی۔ اور گھمسان کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ راجا داہر کو شکست ہوتی ہے۔ محمد بن قاسم فاتح بن کر شہر میں داخل ہوتا ہے۔ قلعہ میں قید تمام قیدی آزاد ہوتے ہیں۔ سندھ دیبل فتح ہو جاتا ہے۔ راجا داہر شہر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور راجا راسل کی راجدھانی کچھ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ علاقہ ہندوستان میں شامل تھا جو آج گجرات کا ٹھیاواڑ کا حصہ ہے۔ وہ راجا راسل کے ساتھ مل کر محمد بن قاسم سے بدلہ لینے کی تیاری کر رہا تھا کہ محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کو پار کر کے اس پر حملہ کیا اور راجا داہر کو وہاںپر شکست ہوئی اور وہ مارا گیا۔
محمد بن قاسم کون تھا۔ محمد بن قاسم کا نام عماد الدین محمد تھا۔ ان کے والد قاسم بن یوسف بصرہ (عراق) کے والی تھے۔ آپ ؒ رشتہ میںحجاج بن یوسف کے (حقیقی نہیں) بھتیجے ہوتے ہیں۔ محمد بن قاسم 31 دسمبر 694ء کو طائف میں پیدا ہوئے۔ وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ذہین نوجوان تھے۔ فوج میں شامل ہوئے اور اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر نوجوانی میں ہی سپہ سالار بنا دیے گئے۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا۔ تاریخ میں ایک عظیم سپہ سالار اور حکمران کے طور پر جاننے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو کبھی میدان جنگ میں شکست نہیں ہوئی۔ بلکہ اپنوں کی سازشوں نے شکست دی ہے۔ محمد بن قاسم ملتان کو فتح کر کے بعد ہندوستان کے بقیہ علاقہ کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے کہ نئے بادشاہ سلیمان بن عبدالملک کا حکم پہنچا کہ فوراً عراق واپس آجاؤ۔ ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنے۔ جن سے محمد بن قاسم کے خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے۔ ساتھیوں نے محمد بن قاسم کو واپس جانے سے منع کیا لیکن محمد بن قاسم یہ جانتے ہوئے کہ اُن کے ساتھ کوئی اچھا رویہ نہیں رکھا جائے گا۔ حاکم وقت کی اطاعت کرتے ہوئے عراق پہنچ گئے۔ جہاں انہیں قید کر دیا گیا۔ اور 18جولائی 715ء کو موصل (عراق) میں ایک قید خانے میں آپ کا انتقال ہوا۔
محمد بن قاسم نے دیبل کو فتح کرنے کے بعد گجرات، الوریا، اروڑ، برہمن آباد، ملتان، کھیڑا کے علاقوں کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے سندھ کی تہذیب و تمدن کا برا حال تھا۔ ظلم کا نظام رائج تھا۔ لوگوں کو اُن کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہوا تھا۔ صدیوں سے ہندوانہ رسم و رواج عام تھے۔ عورتوں کا کوئی مقام نہیں تھا طبقاتی نظام رائج تھا۔ محمد بن قاسم نے راجا داہر کی ظالمانہ حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ اسلام کا عالانہ اور منصفانہ نظام قائم کیا۔ برسوں سے قائم شخصی غلامی کا شکار عام آدمی کو اسلامی سلطنت کے زیر سایہ مساوی درجہ دیا گیا۔ چھوت چھات اور شودر، برہمن سماج کے شکار سندھ کی پسماندہ اور پست برادریوں کو اسلامی عقائد کے مساوی اہمیت دی گئی۔ احترام آدمیت کے یہ مناظر اہل سندھ کو محمد بن قاسم کا گرویدہ کر گئے۔ انہوں نے مملکت کے انتظامات کو بہتر بنایا۔ محاصل کی وصولی کے قواعد آسان اور اتنے بہترین بنائے تھے کہ مسلمانوں سے اراضی پر عشر، لگان اور غیر مسلم راجاؤں سے خراج نیز مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں سے وصول شدہ جزیہ ملک میں عوام کی بہبود پر خرچ کیا جاتا۔ جن کاشت کاروں کی پیداوار کم تھی انہیں سرکاری لگان کی معافی دی جاتی۔ محمد بن قاسم کے اس رویہ اور طرز حکمرانی سے مقامی باشندے انہیں فرماروا سے زیادہ اپنا ہیرو اور مسیحا سمجھنے لگے۔ محمد بن قاسم نے رحمدلی، نرم مزاجی اور حسن سلوک سے جس مسلم ریاست کی بنیاد رکھی وہ بعد کے ادوار میں بھی اسی شناخت کے ساتھ برقرار رہی۔ امویوں کے بعد صفاری، ہباری، ترخان، ارغون، کلہوڑے، تالپور وغیرہ برسراقتدار رہے لیکن سندھ کا مسلم تشخص آج تک الحمدللہ برقرار ہے۔
محمد بن قاسم نے سندھ کی تہذیب و ثقافت پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ یہ سندھی ٹوپی پر جو محراب ہے یہ اُنہی کے دور میں بنائی جانا شروع ہوئی۔ محمد بن قاسم کے سندھ کی سرزمیںکو فتح کرنے سے برصغیر اسلام کے نور سے منور ہوا۔ پہلا قرآن مجید کا ترجمہ سندھی زبان میں ہوا، برصغیر پاک و ہند نے عالم اسلام کوشاہ ولی اللہ، سید احمد شہید ؒ، علامہ اقبالؒ، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، جیسے جید عالم دین اور اسکالرز دیے۔ قائداعظم محمد علی جناح جیسا زیرک سیاستدان اور لیڈر دیا۔ جس کی قیادت میں دنیا کی واحد اسلامی سپرپاور مملکت پاکستان جود میں آئی۔ یہ اعزاز بھی سندھ کی سرزمین کو حاصل ہے کہ پاکستان کے حق میں سب سے پہلی قرار داد سندھ اسمبلی میں پاس ہوئی۔ محمد بن قاسم کا کردار ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں کے بارے میں معلومات ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امت کی ہے کہ ہمارے اصل ہیروز کو نصاب تعلیم میں شامل ہونا چاہیے۔