کورونا خان

333

ناصر حسنی
کمار پاشی نے کہا تھا باہر خطرہ ٹہل رہا ہے /خود کو گھر نے اندر رکھ دیں۔ سو لوگوں نے خود کو گھر نے اندر رکھ دیا ہے شادی پر شادی تو کی جاسکتی ہے۔ مگر روزہ پر روزہ نہیں رکھا جاسکتا اس لیے چپ شاہ کے روزے کی افطاری کی جارہی ہے۔ ایک گھر میں بند چند نوجوان چپ شاہ کے روزے کی افطاری کا انتظار کررہے تھے۔ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ اب شہادت اور ہلاکت کا فیصلہ بھی وزیر اعظم عمران خان کریں گئیں۔ سامعین میں سے کسی نے استفسار کیا کہنا کیا چاہتے ہو۔ جواب دیا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کو شہید کا درجہ دیا جائے گا۔ حالانکہ اس کا فیصلہ تو صدیوں قبل خدا اور اس کے رسول نے کر دیا ہے۔ ہم ایک مقامی اخبار میں نیوز ایڈٹر کے فرائض نبھا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے پبلشر سے شکایت کی کہ تمہارا نیوز ایڈیٹر ہماری خبروں سے شہید کا لفظ حذف کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب لکھا جائے تو صاحب کا لفظ حذف کر دیا ہے۔ پبلشر نے کہا اس کا جواب حسنی صاحب ہی دے سکتے ہیں۔ ہمارے طلبی ہوئی تو ہم نے کہا عدالت عظمیٰ نے سزا موت سنائی ہے سو انہیں شہید نہیں کہا جاسکتا۔ یہ توہین عدالت ہے اور صاحب اس لیے نہیں لکھا جاسکتا کہ یہ جہالت کا اظہار ہے۔ مرے ہوئے آدمی کو صرف مرحوم لکھا جاسکتا ہے۔ چند دنوں نے بعد پیپلز پارٹی کے سرگرم اور فعال رہنما کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ ہم نے انہیں شہید لکھ دیا تو بہت سے دوستوں نے کہا حسنی یہ تبدیلی کیسی؟ ہم نے جواب دیا اگر کسی کی ناگہانی موت واقع ہوجائے تو اسے شہادت کے مرتبے سے نوازا جاسکتا ہے۔
میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ڈینگی کی وبا پھیلی تو عمران خان انہیں ڈینگی برادرز کہ کر پکارتے تھے۔ اب کورونا وائرس کی وبا نے تاج داروں کے تاج خطرے میں ڈال دیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بے تاج بادشاہ ہیں اس لیے ان کے تاج کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ ان کو کورونا خان کہا جاسکتا ہے کہ عوام حکمرانوں نے نقش قدم پر چلنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ ایک دوست نے پوچھا اب تم جو عدالتی نظام کے بارے میں لکھ رہے ہو اس کے بارے میں کیا خیال ہے ہم نے کہا اسے ہماری نادانی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت تک ہم عدالتی نظام اور فیصلوں کے طریقہ کار سے واقف نہیں تھے جج صاحباں کو خدا کو حقیقی نائب سمجھتے تھے۔ مگر جب عدالتوں سے واسطہ پڑا تو علم کو ہوا کہ یہاں خدا کی نیابت کم اور شیطان کی جانشینی زیادہ کی جاتی ہے۔ DRریجرز کی ملازمت سے فارغ ہوکر ہم کراچی چلے گئے اور اپنے دو مکان اور پانچ دکانیں ایک انتہائی قریب عزیز کے حوالے کرگئے موصوف نے جعلی فرض ملکیت بنوا کر قبضہ کر لیا۔ محکمہ مال، سول کورٹ اور سیشن کورٹ میں عدم ثبوت کی بنا پر مقدمہ خارج کردیا گیا۔ مگر عدالتیں اپیل در اپیل کے دائرے میں خود میں گھوم رہی ہیں ہمیں بھی گھما رہی ہیں۔ بہاولپور ہائی کورٹ میں مخالف نے 2014 میں اپیل دائر کی تھی ساتواں سال شروع ہوچکا ہے مگر آج تک سماعت نہیں ہوئی کبھی غلطی سے پیشی پڑ بھی جائے تو جسٹس صاحب Left Over کا ہتھوڑا برسادیتے ہیں۔ ہم آئین کے ماہرین سے گزارش کریں گے کہ ہمیں عدلیہ سے نجات دلائی جائے نجات کس طرح مل سکتی ہے۔