کورونا، کراچی، کپتان

342

حسیب عماد صدیقی
جہاں کورونا کی وبا نے معیشت کو جکڑ کے رکھ دیا، وہاں کراچی اس لاک ڈائون سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ابتدائی طور پر سندھ حکومت کے اقدامات کو سراہا گیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ واضح ہونے لگا کہ ملک مکمل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور اسمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے کورونا اور کاروبار دونوں کو ساتھ چلنا چاہیے۔ پنجاب، کے پی کے اور باقی ملک میں چھوٹی بڑی انڈسٹریز اور کاروبار اسمارٹ لاک ڈائون کی شرائط کے ساتھ کھلنے لگا اور زندگی آہستہ آہستہ اپنے نارمل روٹین کی طرف جانے لگی۔ لیکن سندھ حکومت نے کراچی میں کاروباری لاک ڈائون جاری رکھا۔ دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ہجوم کی صورت میں اکھٹا ہونے سے روکنا ہے۔ تاکہ کورونا کے پھیلائو پر کنٹرول کیا جاسکے۔ عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک آپ پورے شہر میں نکل جائیں۔ بیکری، کریانہ اسٹور، سبزی، گوشت، فروٹ کے ٹھیلے دودھ دہی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور ان پر عوام کا جم غفیر سماجی فاصلے کے احکامات کی دھجیاں اڑاتا نظر آتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہوتا ہے۔ اور لاکھوں کی تعداد میں شہری کسی کورونا کی پروا کیے بغیر 10 گھنٹے تک گھومتے رہتے ہیں۔ اگر بندش ہے تو صرف انڈسٹری اور کاروبار پر۔ سینیٹری، الیکٹرونک، کپڑا، فرنیچر، لکڑی، مشینری، آٹوپارٹس اور اس قسم کے سیکڑوں کاروبار کی مارکیٹس پر لاک ڈائون ہے۔ ان ہزاروں دکانوں اور کاروبار سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ کاروبار کی بندش سے یہ اپنے اخراجات جن میں ملازمین کی تنخواہیں، دوکان کے کرایے اور یوٹیلیٹی بل ادا کرنے سے قاصر ہیں اور لاک ڈائون مزید بڑھنے سے ان کے کاروبار کے دیوالیہ ہونے اور لاکھوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر لاک ڈائون کا مقصد سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر کورونا کے پھیلائو کو روکنا تھا تو وہ 10 گھنٹے لاکھوں افراد کے باہر گھومنے سے فوت ہوگیا تو پھر کاروباری اداروں نے کیا قصور کیا ہے کہ انہیں مزید لاک ڈائون سے دیوالیہ کردیا جائے۔ یہاں لاک ڈائون کا ایجنڈا اور سندھ حکومت کے اقدامات مشکوک نظر آتے ہیں۔ یہ لاک ڈائون نہیں بلکہ کاروبار پر کلیمپ ڈائون (شکنجہ کسنا) ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی کو کراچی سے ووٹ نہیں ملتا لہٰذا کراچی کے شہریوں کی مشکلات سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ کراچی اور سندھ کے اردو بولنے والے شہریوں پر پہلے ہی بشمول سندھ سیکرٹریٹ، پولیس اور سندھ کے تمام سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے دروازے غیر اعلانیہ طور پر بند ہیں۔ لہٰذا اردو بولنے والے لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت تلاش کرتے ہیں یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کو موقع ملے وہ باہر چلے جاتے ہیں۔ پرائیویٹ نوکری، کاروبار اور ملک سے باہر چلے جانے والوں کے تعداد 10 فی صد بھی نہیںہوتی باقی 90 فی صد بیروزگار گھوم رہے ہیں۔
کراچی کے شہری اس وقت شدید مایوسی اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم سے تنگ آئے شہریوں کو عمران خان نے انصاف، میرٹ اور کرپشن فری سوسائٹی کے جو سنہرے خواب دکھائے تھے ان میں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا تھا۔ لیکن عمران خان سے انہیں مایوسی ہوئی۔ عمران خان اور ان کی کراچی کی ٹیم کے پاس کراچی والوں کے لیے سوچنے کا وقت نہیں۔ کراچی سے پی ٹی آئی کے شہسوار عارف علوی اور عمران اسماعیل ایوان صدر اور گورنر ہائوس میں بند ہیں۔ فیصل واوڈا اور علی زیدی جیسے تیر انداز وزارت کے مزے لے رہے ہیں۔ خرم شیر زمان اور حلیم عادل شیخ جیسے پیادے اپنی قیادت کے آئے دن کے احمقانہ بیانات کا نہایت تندہی سے دفاع کررہے ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کراچی سے باقی ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی کو شاید کوئی جانتا ہی نہیں، نہ وہ کورونا کی اس صورتحال میں کہیں نظر آئے۔ پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو مایوس کیا اور ان کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ اردو بولنے والوں میں ایک شدید احساسِ محرومی جنم لے رہا ہے کسی فورم پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی، وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ بے بسی غصے میں تبدیل ہو کر کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔
کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور روزانہ وفاق کو ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے دیتا ہے۔ وفاق میں عمران خان کی حکومت ہے اور کراچی میں سب سے زیادہ نشستیں بھی عمران خان ہی کو ملی ہیں۔ عمران خان کی جانب سے کراچی کو نظر انداز کرنے کی تُک سمجھ نہیں آتی۔ کراچی کے شہریوں کی معاشی حالت ہر گزرتے دن بدترین ہوتی جارہی ہے۔ مڈل کلاس سفید پوش طبقے کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ کسی بھی معاشرے کی مڈل کلاس اس کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ یہ سب سے زیادہ قانون پسند، خوددار، اپنی اولاد کو تعلیم دلانے
والے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے اور معاشرتی روایات کے امین ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں جتنی بڑی مڈل کلاس ہوتی ہے وہ اتنا ہی سماجی اور معاشی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اس لاک ڈائون میں یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ اس طبقے کی اکثریت اردو بولنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ سندھ حکومت سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ کراچی پر کلیمپ ڈائون کا ایجنڈا کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کراچی میں اپنا وجود قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے مکمل اور خودمختار مقامی حکومت کا نظام لانا ہوگا۔ انتظامی اختیار اور مالی وسائل صوبائی حکومتوں سے نیچے شہر اور ضلع کی سطح پر منتقل کرنے ہوں گے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کے لیے مئیر کو براہ راست الیکشن کے ذریعہ منتخب کرانا ہوگا اور اسے شہری امور پر مکمل مالی اور انتظامی اختیارات دینے ہوںگے۔ منتخب کونسلرز کی سٹی کونسل کو شہری امور سے متعلق ہر قسم کے قانون سازی کی اجازت دینی ہوگی۔ اگر عمران خان یہ دلیرانہ اقدامات اٹھالیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر لوکل گورنمنٹ کو بااختیار بنا دیں تو وہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں مقبولیت کی انتہا پر ہوںگے۔ سچ پوچھیں تو اس کورونا کی وبا کے دوران خصوصاً اور دیگر مسائل پر عموماً اگر کسی نے شہریوں کی مدد کی ہے تو وہ جماعت اسلامی اور الخدمت ہے۔ ہر موقع پر وہ عوام کی خدمت کرتے اور ان کی تکالیف کم کرتے نظر آتے ہیں۔ عوام کی جانب سے ووٹ کے موقع پر نظر انداز کیے جانے کے باوجود وہ ہر مصیبت میں عوام کی ساتھ کھڑے نظر آئے۔ کراچی پر جماعت اسلامی کا ووٹ قرض ہے۔ اس دفعہ الیکشن میں جماعت اسلامی کو چن لیں۔ اگر حافظ نعیم الرحمن کراچی کے مئیر بن گئے تو کراچی کی قسمت بدل جائے گی۔