وزیر اعلیٰ سندھ کورونا وائرس کے مسئلے پر شروع سے متحرک نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اقدام اور فیصلوں کی پورے ملک کے سنجیدہ حلقوں نے نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ اور صوبوں نے بعد میں ان ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ کے حکمرانوں اور وفاق میں سوچوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جب صوبہ سندھ میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت وفاقی دارالحکومت سمیت کسی صوبے میں لاک ڈائون نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک صوبے میں لاک ڈائون کرنے پر دبے الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ایک ہفتے بعد پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں بھی لاک ڈائون کردیا گیا۔ پاکستان میں یہ پہلا تجربہ تھا جس میں حکومت اپنے تمام دفاتر، پرائیویٹ دفاتر، ٹرانسپورٹ مارکیٹیں اور بازار بند کرارہے تھے، ورنہ پاکستان میں تو اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں، تنظیمیں اور انجمنیں حکومت کے خلاف ہڑتال کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ اس وقت حکومت اور انتظامیہ کی کوشش ہوتی تھی کہ مارکیٹیں اور بازار کھلے رہیں اور ٹرانسپورٹ چلتی رہے۔ لاک ڈائون پوری دنیا میں ہورہا ہے کہیں سخت اور کہیں نرم۔ کورونا وائرس کی جو وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس کا علاج ہے لاک ڈائون اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ گھروں کے اندر رہیں اور کسی شدید ضرورت کے بغیر باہر نہ نکلیں، اور باہر جائیں بھی تو بھیڑ سے بچ کر رہیں کسی دکان میں جائیں تو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں ماسک پہنے رہیں کھانسی یا چھینک آئے تو دونوں ہاتھوں یا کپڑوں سے منہ ڈھانک لیں۔ چین کے شہر ووہان میں اس وبا کا آغاز ہوا تھا اس شہر کو لاک ڈائون کردیا گیا۔ جن ممالک میں جبر کا نظام ہوتا ہے کبھی کبھی اس کے فوائد بھی نظر آتے ہیں کہ ووہان کا لاک ڈائون اپنی اصلی شکل میں لاک ڈائون تھا یہی وجہ ہے کہ چین نے اس پر بہت حد تک قابو پا لیا۔ ووہان کے لاک ڈائون میں کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں تھی تو واقعتا کوئی باہر نہیں نکلا حکومت کی طرف سے ہر گھر میں تینوں وقت کا کھانا پہنچایا جاتا تھا، جو مسلم گھرانے تھے وہاں باقاعدہ حلال کھانے پہنچائے جاتے تھے اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو حکومت کی طرف سے اس کا علاج ہوتا اب ہمارے یہاں جو لاک ڈائون ہے اس میں کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے حکومت وقت ہر گھر میں تینوں وقت کا کھانا پہنچائے گی۔
اسی لیے وزیر اعظم عمران خان کی رائے تھی کہ لاک ڈائون میں نرمی کی جائے کہ لوگوں کو کچھ وقت اپنے کاروبار کے لیے بھی دیا جائے تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے، جبکہ ہمارے وزیر اعلیٰ کی اس کے برعکس رائے تھی کہ لاک ڈائون کو سخت کیا جائے ورنہ کورونا کے مریضوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھتی رہے گی اور ہمارے اسپتالوں میں گنجائش کم ہے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی آرا میں ایک وزن تو ہے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون کی سختی کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا سے تو لوگ بچ جائیں لیکن بھوک سے مر جائیں اس لیے اس میں کچھ نرمی کرکے لوگوں کو اپنے روزگار پر جانے دیا جائے جبکہ وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ دوسرا روزگار تو مل سکتا ہے لیکن دوسری زندگی نہیں مل سکتی۔ دوسری طرف ملک کے معروف ڈاکٹروں پی ایم اے اور پیما کے عہدیداروں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں تمام اہل وطن سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈائون پر سختی سے عمل کیا جائے اس لیے کہ ماہ مئی کے پہلے دوسرے ہفتے میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کہ خطرات ہیں اس لیے اس وبا سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے ہم زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی مئی کے شروع کے دو ہفتوں کو پاکستان کے لیے خطرناک قرار دیا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ نے بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹروں کی پریس کانفرنس کو وزیر اعظم کے مشیر شہباز گل نے حکومت سندھ کی سیاسی چال گردانتے ہوئے کہا کہ ان ڈاکٹروں نے وزیر اعلیٰ کے کہنے پر پریس کانفرنس کی ہے تاکہ لوگوں کو غیر ضروری طور پر خوف میں مبتلا کیا جائے۔ حالانکہ ان ڈاکٹروں کے ترجمان نے اس کی تردید کی ہے کہ انہوں نے یہ پریس کانفرنس وزیر اعلیٰ کے اشارے پر کی ہے۔ پی ایم اے شہباز گل سے گزارش کرتی ہے کہ وہ اپنا بیان واپس لیں کیونکہ اس سے ایسے وقت میں ڈاکٹروں کی دل آزاری ہوئی ہے جب وہ کورونا وائرس کے خلاف صف اول کے سپاہی بن کر جنگ لڑ رہے ہیں۔
رمضان بھی شروع ہو گئے ہیں میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ جس میں رمضان کی وہ آب تاب، وہ رحمتیں اور برکتیں جو کچھ دن پہلے سے مارکیٹوں، بازاروں اور محلوں میں نظر آتی تھیں اس دفعہ اس سے محروم رہے اس دفعہ کی رمضان کی چاند رات میں اندھیرا اور سناٹا تھا۔ کئی روز سے مسجد جانا نہیں ہورہا تھا سوچا ذرا مسجد کی طرف چل کر دیکھتے ہیں راستے ہی میں دو ساتھی جو مسجد سے ہی واپس آرہے تھے نے بتایا کہ مسجد بند کردی گئی ہے جتنے لوگ آنے تھے وہ لے لیے گئے ہوں گے۔ میری سندھ کے وزیر اعلیٰ سے درخواست ہے کہ وہ پوپلزئی بننے کی کوشش نہ کریں آپ کے اقدامات اور فیصلے قومی مفاد میں ہیں لیکن کچھ غریبوں کا بھی خیال رکھیں، آپ اور آپ کے ساتھی سوسائٹی کے ان مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے کبھی غربت دیکھی نہیں ہے۔ اس لیے عوام کی خاطر کچھ نرمی کا مظاہرہ کریں۔