نادرا دفاتر کھلنے پر رش

250

پاکستان میں لاک ڈائون کی طوالت کے نتیجے میں اس کے خاتمے کے وقت زیادہ مشکلات کا سامنا ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جس طرح شادیوں اور دعوتوں میں تاخیر سے کھانا شروع کرانے پر زبردات ہڑبونگ ہوتی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے اور متحمل مزاج لوگ دھکے لگا کر کھانا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح بہت زیادہ دنوں تک لاک ڈائون کا شکار لوگوں کو جب نرمی ملے گی تو وہ اسی رویے کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ حقیقت ایک ماہ سے زیادہ بند رہنے والے نادرا دفاتر کھلتے ہی سامنے آگئی۔ پورے ملک میں نادرا کے جتنے بھی دفاتر کھلے وہاں لوگ ایس او پی کی پروا کیے بغیر ایک دوسرے سے خلط ملط ہوتے ہوئے کھڑے نظر آئے۔ اس میں ان لوگوں کے بے صبرے پن یا کورونا سے متعلق معلومات میں کمی کا قصور نہیں ہے بلکہ حد سے زیادہ دنوں تک دفاتر بند رہنے کی وجہ سے ان کے کام رکے پڑے تھے۔ کسی کا شناختی کارڈ بلاک ہے تو کسی کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بینک سے رقم نکالنا مشکل ہے تو کوئی احساس پروگرام سے محروم تھا۔ کتنے ہی لوگوں کے بچوں کی عمریں 18 برس سے زیادہ ہو گئی ہوں گی اور وہ نئے شناختی کارڈ بنوانا چاہتے ہوں گے۔ عام حالات میں نادرا دفاتر پر بے انتہا رش ہوتا ہے تو ایک ڈیڑھ ماہ بندش کے بعد کیا حال ہونا تھا۔ یہی صورتحال، دکانوں، کپڑے وغیرہ کے اسٹالوں، بس کے اڈوں، ویگن، ٹرینوں اور جہازوں کا بھی ہونے والا ہے۔ کسی منصوبہ بندی اور کسی قسم کے مشورے کے بغیر لاک ڈائون اور افسر شاہی کے دماغ میں آنے والے خیالات ایس او پی بن گئے ہر صوبے اور علاقے کا ایس او پی الگ الگ ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ الگ الگ معاملات چل رہے ہیں۔ حکومتیں ٹرانسپورٹ، کاروبار وغیرہ پر جتنی زیادہ پابندی لگائیں گی۔ پابندیوں کے خاتمے کے بعد یہی صورتحال سامنے آئے گی جو نادرا دفاتر پر نظر آئی ہے اس لیے فیصلے جلد کرنے ہوں گے۔ ورنہ ساری احتیاط بے کار ہو جائے گی۔