یمن کا نیا بحران

272

پچھلے کئی سال سے خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اہم اسلامی ملک یمن گزشتہ دنوں ایک بار پھر ایک نئے سنگین بحران سے دوچار ہوگیا ہے۔ یہ بحران جنوبی یمن میں سرگرم عمل Southern Transitional Council (ایس ٹی سی) کی جانب سے جنوبی یمن کی خودمختار ی کے اعلان کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ یمن پچھلے کئی سال سے جہاں خانہ جنگیوں اور سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب اتحاد کی جانب سے براہ راست بیرونی مداخلت کا شکار رہا ہے وہاں اقوام متحدہ کے مطابق اقتصادی زبوں حالی، غربت اور وبائی امراض کی وجہ سے بھی یمن کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ دوسری جانب ایس ٹی سی کے کارپردازوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے عوام کو مکمل تباہی سے بچانے اور ممکنہ انسانی المیے کا راستہ روکنے کے لیے خودمختاری کا اعلان مجبوری کے تحت کیا ہے۔
یاد رہے کہ یمن کے جنوب اور شمال کی چپقلش کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ اس تفریق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عثمانی خلافت کے خاتمے پر یمن کے جنوبی حصے پر متوکلی شہنشاہیت قائم ہوگئی تھی جس کے بانی زیدیہ فرقے کے روحانی و عسکری پیشوا امام یحییٰ محمد تھے جبکہ شمالی یمن سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آلِ سعود کے زیراثر چلاگیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ صدی کے نصف میں مصر کے صدر جمال ناصر جب عرب قومیت کا نعرہ لگاتے ہوئے شام ا ور مصر کا الحاق کرکے متحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے تھے تو 1958میں جنوبی یمن کی متوکلی سلطنت بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئی تھی تاہم 1961میں جب شام نے مصر سے الحاق ختم کردیاتو جلد ہی یمن بھی اس اتحاد سے نکل گیا تھا البتہ بعد میں اندرونی کشمکش اور بیرونی مداخلتوں کے نتیجے میں یمن دو الگ اور خود مختار مملکتوں شمالی اور جنوبی یمن میں تقسیم ہوگیا تھا۔ جنوبی یمن میں کمیونسٹ حکمران برسراقتدار آگئے تھے جب کہ شمالی یمن سعودی عرب اور امریکا کے زیر اثر چلا گیا تھا۔ بعدازاں سوویت یونین کے انہدام کے آثار واضح ہونے کے ساتھ ہی مئی 1990 میں جنوبی اور شمالی یمن نے باہم الحاق کرکے یمن عرب ری پبلک کے نام سے ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم کرلی تھی۔ اس الحاق کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح متحدہ ریاست کے پہلے صدر اور جنوبی یمن کے کمیونسٹ رہنما علی سالم البیض نائب صدر مقرر ہوگئے تھے۔ تاہم صرف چار سال بعد ہی علی سالم نائب صدارت سے استعفا دے کر عدن واپس چلے گئے تھے جہاں انہوں نے جنوبی علاقوں کے استیصال کا الزام لگاکر جنوبی یمن کو خودمختار ریاست بنانے کا مطالبہ کردیا تھا جس سے ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تھا۔
صدر علی عبداللہ صالح طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے اس وقت بغاوت کی یہ تحریک تو کچلنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار کی لہر جب یمن پہنچ گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے مصر کی طرح پورے یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کے نتیجے میں علی عبد اللہ صالح کو اقتدار اپوزیشن راہنما عبد الرب منصور ہادی کے حوالے کرنا پڑا تھا۔ منصور ہادی چونکہ حادثاتی طور پر بغیر کسی پیشگی تیاری کے برسراقتدار آئے تھے اس لیے ان کے پانچ سالہ دور حکومت کو کئی حوالوں سے ناکام ترین حکومت سے تعبیر کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف سابق صدر علی عبد اللہ صالح کو ایک بار پھر کھل کھیلنے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ انہوں نے شمال مغرب سے ابھرنے والی ایک نئی انقلابی حوثی تحریک جس کا سرکاری نام انصار اللہ ہے کے ساتھ اتحاد قائم کر کے جہاں منصور ہادی کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا وہاں وہ حصول اقتدار کی اسی کشمکش میں حوثی باغیوں کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے نتیجے میں وہ جان کی بازی بھی ہار گئے تھے لہٰذا تب سے انصاراللہ لبنان کی حزب اللہ کی طرز پر ایرانی سرپرستی میں اگر ایک طرف یمن کے شمال مغربی علاقوں میں اپنا وسیع نیٹ ورک قائم کرکے مسلح جدوجہد کے ذریعے دارالحکومت صنعاء سمیت ملک کے اکثر علاقوں پر قابض ہوچکی ہے تو دوسری جانب اس کے خلاف سعودی قیادت میں خطے کے چھ عرب ممالک کا ایک اتحاد بھی وجود میں آ چکا ہے جو پچھلے پانچ سال سے فضائی اور کسی حد تک زمینی طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود نہ تو حوثی باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو واگزار کراسکا ہے اور نہ ہی اس اتحاد کی جانب سے یمن کے عوام کی داد رسی کی کوئی اور کوشش کی گئی ہے جس کے باعث یمن کا بحران ہرگزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ جس میں تازہ پیش رفت ایس ٹی سی کی جانب سے جنوبی یمن کی خود مختاری کا اعلان ہے جسے متذکرہ عرب اتحاد کے اہم اتحادی متحدہ عرب امارات کی حمایت تو حاصل ہے البتہ سعودی عرب ایسی کسی کوشش کی شروع دن دے سخت مخالف رہا ہے لہٰذا اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یمن مشرق وسطیٰ میں شام کے بعد دوسرا بڑا اور اہم اسلامی ملک ہے جو اپنوں اور غیروں کی سازشوں کے نتیجے میں شمال اور جنوب کی جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ حوثی باغیوں، علی عبد اللہ صالح اور منصور ہادی کے متحارب جنگجو دھڑوں، ایس ٹی سی، القاعدہ اور داعش کے جنگجوئوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بیرونی جارحیت اور شدید خانہ جنگی کا بھی شکار ہے جس کا تمام تر خمیازہ یمن کے غریب اور مفلوک الحال عوام کو شدید غذائی قلت، وبائی امراض اور بھوک وافلاس کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔