حکومت، میڈیا اور ملازمتوں کا تحفظ، اب دنوں ذرائع ابلاغ کے شعبے سے وابستہ افراد کی کہانی کا عنوان ہے، جہاں یہ حکومت کے لیے سوچنے کا مقام ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کا معاوضہ دلائیں یا دلانے کی عملی کوشش کریں کہ وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں پارلیمنٹ آئین کے نیچے کام کرتی ہے اور آئین میں پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو جینے کا حق دیا گیا ہے اور روزگار کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، پریس کلب چلے جائیں اور اخبار نویسوں کی کوئی محفل سجی ہو، ہر جگہ میڈیا کا بحران ہی گفتگو کا موضوع ہے۔
جب سے دنیا بنی ہے اور انسان نے جینا شروع کیا ہے دو ہی طبقے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، ان میں ایک وہ ہے جس نے زہر پیا ہے اور دوسرا وہ جس نے زہر پلایا ہے، ایک طبقہ ہے جسے عدل چاہیے، ایک طبقہ ہے جس کے لیے عدل خریدنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ تین مئی، یوم آزادی صحافت کا دن، ابھی تازہ تازہ ہی منایا گیا ہے، یہ دن اس انداز میں منایاگیا کہ میڈیا برادری کا ہر چھوٹا بڑا کارکن پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا، پارلیمنٹ ہائوس شاہراہ دستور پر واقع ہے، پہلو میں عدالت عظمیٰ اور ایوان صدر کی عمارت ہے۔ عدالت عظمیٰ آئین کی محافظ ہے، پارلیمنٹ آئین سازی کا حق رکھتی ہے اور صدر پاکستان ریاست کے سربراہ ہیں، اس روز میڈیا برادری اپنے حق کے لیے ان تینوں اداروں سے بھی مخاطب تھی، معاملہ یہ ہے کہ میڈیا کے بہت سے ادارے ہیں جہاں ملازمین کو ایک سال ہوچکا ہے، جی ہاں ایک سال… تنخواہ نہیں ملی، بہت سے ادارے ہیں جہاں چھ چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، وجہ یہ نہیں کہ میڈیا کے یہ ادارے معاشی لحاظ سے غیر مستحکم ہیں، ہاں البتہ کچھ ادارے واقعی غیر مستحکم ہیں، لیکن وہاں تنخواہوں کا بحران ہے مگر ایسا بحران نہیں جیسا بڑے اداروں میں ہے، ہم نام نہیں لیتے، لیکن کارکنوں کے چہرے پڑھ لیں، چہرے خود ہی بول رہے ہیں کہ وہ کس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ایسے کارکن جن کی تنخواہیں بیس سے پچیس ہزار تک ہیں انہیں بھی چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں، سوچیے کہ گزاراکیسے کررہے ہوں گے؟ تنخواہوں کا مسئلہ اینکروں کا ہے ہی نہیں، اور تلخ سچ یہ ہے کہ یہ میڈیا رہنمائوں کا بھی مسئلہ نہیں ہے، یہ کارکن کا مسئلہ ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کارکنوں کی یہ مخلوق تو اب زندہ باد کے نعرے لگانے، دریاں بچھانے اور تالیاں بجانے والی بن چکی ہے، جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہے، انہیں تو کوئی پروا نہیں ہے، انہیں تو صرف مجمع چاہیے جہاں وہ خطاب کر سکیں۔
آج کل یہ نئی سوچ ابھر رہی ہے کہ جس اخباری کارکن نے اشاعتی ادارے میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی بزنس بھی شروع کر رکھا ہے تو اسے عقل مند کہا جارہا ہے، اس کے سینے پر دور اندیش ہونے کا تمغہ سجایا جاتا ہے، گویا اب ذرائع ابلاغ میں کسی مولانا جوہر علی، مولا ظفر علی خان کی ضرورت نہیں رہی، اب اگر کوئی فن کار ہے تو اینکر بھی بن سکتا ہے، یہ بھی گنجائش ہے کہ دن میں وکالت کرو اور رات کو میڈیا عدالت لگا لو، سیاست دانوں کو حکومت بنانے کے پیغام پہنچائو، قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا انکشاف تو ابھی کل کی بات ہے دو سینئر اخبار نویس پیغام لے کر آئے تھے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت بن رہی ہے، جناب، انہیں اخبار نویس کہہ کر میڈیا کارکن کی مزید تذلیل نہ کریں، یہ کارکن تو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنے حق کے لیے لڑنے پر فخر کرتا ہے۔ میڈیا کے کسی کارکن کا یہ کام ہی نہیں ہے کس کی حکومت بننی چاہیے اور کس کی ختم ہونی چاہیے، اس کا کام کسی امتیاز کے بغیر خبر فائل کرنا ہے، میڈیا کارکن تو ادریس بختیار ہے، جس نے مصائب دیکھے اور مصائب جھیلے، اس کے وارث کس حال میں ہیں، کسی سیٹھ، اور سیٹھ نما مالک کو کوئی خبر نہیں ہے۔ جنہیں ادریس بختیار نے چلنا سکھایا، انہوں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ ادریس بختیار کون ہے، ان سب کا اپنا گزربسر بہت اچھے انداز میں ہو رہا ہے بس ان سے یہی گزارش ہے کہ وہ سوچیں اور خیال کریں کہ عید اور رمضان المبارک تو کم تنخواہ پانے والے کارکن کا بھی ہے، جس روز یہ سوچ لیا تو اسی روز بقایا جات کے ساتھ تنخواہ بھی دے دی جائے گی ورنہ یاد رکھیں غریب کی آہ سلطنتیں تباہ کردیتی ہے۔