ہمارے علاقے کے ایک رکن جماعت نفیس میرٹھی جو طویل عرصے سے شدید بیمار ہیں اپریل کے پہلے ہفتے میں وہ ایک نجی اسپتال میں داخل ہوئے جہاں ان کے پیروں کا آپریشن تھا۔ شوگر کی وجہ سے ان کا پیر کاٹ دیا گیا، اللہ انہیں جلد از جلد شفا عطا فرمائے آمین۔ ان کو اور بھی بیماریاں لاحق ہیں ان کے بچوں نے بتایا کہ جب وہ پہلی دفعہ داخلے کے لیے گئے تو ان سے کہا گیا کہ پہلے کورونا کا ٹیسٹ کروائیں اس اسپتال میں کورونا کے ٹیسٹ کی فیس 12000 روپے ہے اور اگر آپ پرائیویٹ روم لیں گے تو پھر اس ٹیسٹ کی فیس 17000 روپے ہوگی۔ مرتا کیا نہ کرتا انہیں تو اپنا علاج کروانا تھا اس لیے چار وناچار یہ ٹیسٹ کروانا پڑا جو شکر ہے کہ منفی آیا وہ کچھ دن اسپتال میں رہنے کے بعد گھر آگئے ان کو چونکہ اور بھی اندرونی بیماریاں ہیں کہ جیسے ان کے پھیپھڑے شدید متاثر ہیں، ہارٹ پرابلم بھی ہے وہ جب گھر واپس آئے تو آتے ہی ان کی طبیعت اچانک پھر خراب ہو گئی اور تقریباً پون گھنٹے بعد دوبارہ اسپتال لے جانا پڑا اسپتال میں دوبارہ داخل کرنے سے پہلے کہا گیا کہ ان کا پہلے کورونا کا ٹیسٹ کروائیں پھر داخل کریں گے، ان کو بتایا کہ یہ ابھی تو ایک گھنٹے پہلے یہاں سے گئے ہیں اور ان کا کورونا کا ٹیسٹ پہلے ہو چکا ہے جو منفی آیا تھا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ اسپتال سے جاچکے تھے اس لیے داخلے سے پہلے دوبارہ ٹیسٹ کرانا ضروری ہے چنانچہ پھر ان کا دوبارہ کورونا کا ٹیسٹ ہوا جو منفی آیا۔
کورونا کی وبا اس لیے آئی ہے کہ سرمایہ داروں کو اپنے خزانے بھرنے کا موقع مل جائے، حکومت سندھ اس حوالے سے بڑی اسمارٹ بنی ہوئی ہے اور شروع ہی سے وہ وفاقی حکومت سے دو قدم آگے ہی چل رہی ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ جس اسپتال کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ ان کی پارٹی کے لیڈر کا اسپتال ہے جہاں آصف زرداری صاحب اکثر داخل رہتے تھے۔ اور نجی اسپتالوں کی فیس اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ نجی اسپتالوں کی اس لوٹ مار سے کراچی کے عوام کو نجات دلائیں ورنہ سوشل میڈیا پر جو کچھ آپ کی حکومت اور صوبائی وزراء کے بارے میںچل رہا ہے اس میں کہیں نہ کہیں صداقت کا پہلو نظر آتا ہے کہ تاجروں سے لاک ڈائون نرم کرنے کے لیے ایک بھاری رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے جب تاجروں نے کچھ کم رقم کی پیشکش کی تو اس پر ایک صوبائی وزیر کا یہ جواب سامنے آیا اتنی رقم کا تو میرا چھوٹا بیٹا کار چلاتا ہے۔ اب اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے اللہ بہتر جانتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کا کوئی چیک نہیں ہے اور صوبہ سندھ کی حکومت کا اس پر کوئی جواب بھی سامنے نہیں آیا۔
سب سے بڑی مشکل یہ کہ اس وبا کے بارے میں اب تک کوئی شفاف باتیں سامنے نہیں آسکیں مثلاً ایک بات جو ہم شروع سے سن رہے تھے ابھی موسم سرد ہے جب گرمی پڑے گی تو یہ وائرس اپنی موت آپ مر جائے گا یا اس کی تاثیر intensity وہ نہیں رہے گی جو اب آج کل ہے لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ یکم مئی کو گرمی کی شدت زیادہ تھی اور اسی دن مرنے والوں کی تعداد 47تھی جو اب تک کی تعداد سے دوگنا تھی اس لیے پہلے ہی بعض سائنس دانوں کی طرف سے یہ نظریہ آگیا تھا کہ اس کے لیے بہت زیادہ فارن ہائٹس کی ضرورت ہے انہوں نے جو بتایا اس میں کسی جاندار کا زندہ رہنا بھی مشکل تھا۔ اسی طرح اس کی جو نشانیاں بتائی جاتی ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی کو ایسی کوئی کیفیت نہیں تھی لیکن جب ٹیسٹ کرایا تو کورونا نکل آیا جیسا کہ ہمارے صوبائی وزیر سعید غنی صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے اندر ایسی کوئی علامات نہیں تھیں جن سے یہ شبہ ہو کہ مجھے کورونا لگ گیا ہو لیکن ایک اجلاس کے بعد سب لوگ ٹیسٹ کروا رہے تھے میں نے بھی کروا لیا سارے ساتھیوں کا رزلٹ منفی آیا جبکہ میرا مثبت آگیا، بہر حال انہوں نے اپنے آپ کو قرنطینہ میں کرلیا اور بہت سی احتیاط کی کچھ دعائوں کے ورد بھی کیے الحمدللہ وہ ٹھیک ہو گئے۔ اب گورنر سندھ بھی قرنطینہ میں چلے گئے اللہ انہیں بھی صحت دے اور وہ پھر سے فعال ہو جائیں۔
پاکستان میں اللہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ 22کروڑ کی آبادی میں 2مئی 2020 تک 17699 افراد کورونا کا شکار ہوئے ہیں جبکہ اب تک 182131 ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں 4315 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں اور اب تک 408 افراد جاںبحق ہو چکے ہیں یہ تعداد دیگر ممالک بالخصوص امریکا اور یورپی ممالک میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد سے بہت کم ہے۔ 408افراد کے جاں بحق ہونے والوں میں تقریباً نصف سے زیادہ تو وہ لوگ ہیں جو دیگر بیماریوں میں پہلے سے مبتلا تھے وہ اسپتال پہنچے تھوڑی دیر بعد ان کا انتقال ہو گیا تو انہیں کورونا وائرس میں ڈال دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وبا سے ہمارے حکمران جتنا خوفزدہ نظر آرہے ہیں اتنے عوام اس سے بے فکر نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت ماسک کا استعمال کرتی ہے اور نہ ہی کسی سوشل ڈسٹینس کا خیال رکھتی ہے۔
ایک اور مشکل اس وبا کے بارے میں یہ ہے کہ یہ وائرس کیا اثرات دکھائے گا اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اسی لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پارہا ہے کہ لاک ڈائون کو کتنا نرم کیا جائے یا بالکل سے ختم کردیا جائے ہمارے یہاں مساجد کو جب تالا لگانے کی بات آئی تو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی مثال دی گئی لیکن اب یہ دونوں مقدس مقامات بھی کچھ احتیاطوں کے ساتھ کھولے جارہے ہیں اب تک ہمارے صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ لاک ڈائون سخت کرنے کے حق میں ہیں۔ حالانکہ اب تک کورونا کا معاملہ کسی حد تک کنٹرول میں ہے لیکن ہمارے وزیر اعلیٰ کا خوف اس ہندو لڑکے کی مانند ہے جو مسلمان لڑکے کے اوپر بیٹھا اسے مار رہا تھا اور روتا بھی جارہا تھا لوگوں نے کہا کہ تم تو اسے مار رہے ہو اور پھر رو کیوں رہے ہو اس نے جواب دیا کہ بعد میں یہ مجھے پٹخ کر مارے گا۔ یکم مئی کو جان بحق ہونے والوں کی تعداد کے پی کے میں بہت زیادہ ہے جبکہ سندھ میں بہت کم ہے۔
یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ کل کیا ہوگا آپ اس کے بارے میں حتمی کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے اس لیے ایک دفعہ ہمت کرکے کچھ دن کے لیے لاک ڈائون میں اتنی نرمی کردی جائے کہ تاجر حضرات اپنے کاروبار کا آغاز کردیں کچھ معاشی سرگرمیاں بحال ہوں عید بھی آرہی ہے عام لوگ بڑے پریشان ہیں ان ہی پریشانیوں میں ایک اور پریشان کن خبر یہ ہے کہ کراچی میں 5سے 8مئی تک ہیٹ اسٹروک بھی آنے والا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین