اسپتالوں سے مریضوں کا خوف

407

سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا ہے کہ کورونا سے متاثرہ افراد اسپتال آنے کے بجائے مرض چھپا رہے ہیں۔ اگر شہریوں میں کورونا کی علامات ہوں، دمہ ہو یا شوگر و بلڈ پریشر ہو تو فوری طور پر اسپتال آئیں۔ انہوں نے پیش کش بھی کی ہے کہ ہمارے پاس مریضوں کی تعداد سے زیادہ بستر موجود ہیں۔ ڈاکٹر عذرا نے شکایت کی ہے کہ مریض سانس کی بہت زیادہ تکلیف کے بعد آخری وقت میں اسپتال آتے ہیں۔ یہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ وزیر صحت نے جس جانب توجہ دلائی ہے دراصل یہ حکومت کے غور کرنے کا مقام ہے۔ اسے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیا ہوگیا ہے کہ لوگ اسپتال آنے سے گھبرانے لگے ہیں۔ یہ بات تو دُنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی سطح کے تعلیم یافتہ لوگوں میں تصور نہیں کی جاسکتی کہ وہ بیمار ہو جائیں اور اسپتال نہ جائیں۔ اگر ڈاکٹر عذرا وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم کورونا کے خوف کو پھیلانے کی مہم بند کریں اور اسپتال ہر مریض کو کورونا کا مریض قرار دینے کے رویے کو بدلیں، عام مرض میں انتقال کر جانے والے کو آخری لمحے میں کورونا مریض قرار دے کر اس کی میت پر بھی قبضہ کر لیا جاتا ہے پھر منتیں کرنے یا جھگرا کرنے پر یا پھر بھاری رقم لے کر میت حوالے کی جاتی ہے۔ حکومتوں، وزرا اور نابالغ الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز اور خبر پڑھنے والوں نے چیخ چیخ کر خبریں پڑھ کر اور زوردار آواز میں تجزیے کرکے اس قدر خوف پیدا کر دیا ہے کہ لوگ عام بیماریوں کے علاج کے لیے بھی ڈاکٹروں کے پاس نہیں جا رہے۔ ایسے واقعات بار بار ہو رہے ہیں جن یہ پتا چلتا ہے کہ لوگ دل یا گردے کی خرابی اور کینسر کے مریض کو لے کر اسپتال پہنچتے ہیں لیکن ان کو کورونا کا مریض قرار دے کر اصل مرض کے بجائے کورونا کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس خوف کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر فرقان حیدر جیسے سینیئر معالج بھی اسپتالوں کا رخ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عباسی شہید اسپتال کی او پی ڈی کا حال تو لوگ روز دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو شدید دھوپ میں ایک ٹینٹ لگا کر بٹھا دیا جاتا ہے ان کی جانب سے کسی بھی بیماری کی شکایت ہو پہلے کورونا اسکیننگ کرانے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ مریض درد و تکلیف سے تڑپتے رہیں انہیں اس کی فکر نہیں، پہلے کورونا کا ٹیسٹ ہوگا اس سے زیادہ خوف کا سبب یہ ہے کہ جوں ہی ٹیسٹ مثبت آتا ہے میڈیا سے اعلان ہوتا ہے اور مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے یا کورونا کا علاج شروع ہو جاتا ہے۔ وزیر صحت بتائیں کہ عوام کے ذہنوں سے یہ خوف کون دور کرے گا۔ وہ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ہمارے پاس مریضوں کی تعداد سے زیادہ بستر ہیں۔ کیا معلوم ان کی بات درست ہو اور کورونا کے مریض بھی اپنا مرض چھپا رہے ہوں تو پھر انہیں کیسے پتا کہ ان کے پاس بستر زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ وہ شوگر اور بلڈ پریشر والوں کو بھی بلا رہی ہیں۔ حکمرانوں خصوصاً سندھ حکومت نے میڈیا کی مدد سے جو خوف پھیلایا اور عوام کو ڈرایا ہے اس خوف کو ذہنوں سے نکلالنے میں کئی برس لگیں گے۔ اسپتالوں کی شہرت پہلے بھی کون سی اچھی ہے۔ سندھ میں عدالتوں میں اسپتالوں کی غفلت کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے اور حیرت انگیز طور پر ان میں سب سے زیادہ کیسز نجی اسپتالوں اور بڑے اسپتالوں کے خلاف ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے خلاف نہیں۔ یہ محض افواہ یا پروپیگنڈا نہیں ہے کہ کورونا کے حوالے سے ہر کسی کو مثبت قرار دے دیا جاتا ہے۔ بدھ ہی کے ایک اخبار کی خبر ہے کہ لاڑکانہ میں تندرست نوجوان کو قرنطینہ کر دیا گیا۔ وہ دو ماہ سے علی مروان کالج میں موجود ہے۔ اس کا ٹیسٹ منفی بھی آچکا ہے۔ یہ بات بھی الگ متنازع ہے کہ یہ ٹیسٹ کس بنیاد پر کیے جا رہے ہیں پہلے ہی ٹیسٹ پر کسی کو بھی کورونا وائرس کا مریض کیوں قرار دے دیا جاتا ہے۔ حکومت سندھ کی وزارت صحت اس بات کا بھی جائزہ لے کہ ان کے محکمے کی رپورٹوں اور وزیراعلیٰ کے بیانات میں تضاد کیوں ہے۔ وزیراعلیٰ مریضوں کی جو تعداد بتا رہے ہیں وہ محکمۂ صحت کی جاری کردہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ روزنامہ اوصاف کی خبر ہے کہ کورونا مریضوں کی تعداد کے حوالے سے وزیراعلیٰ اور محکمۂ صحت کے دعوئوں میں تضاد ہے۔ وزیراعلیٰ 8189 مریض بتاتے ہیں، جبکہ محکمۂ صحت کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1231 مریض ہیں۔ اخبار کی خبر بتا رہی ہے کہ جناح اسپتال میں 19، سول اسپتال میں 49، آغا خان میں 77، ایس آئی یو ٹی میں 36 اور ضیا الدین میں دو مریض ہیں۔ سب سے زیادہ مریض آغا خان میں ہیں باقی اسپتالوں پر زیادہ بوجھ نہیں۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی وافر ہے۔ پھر بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سندھ کے لیے ڈھائی سو ڈسپوز ایبل وینٹی لیٹرز خریدے جا رہے ہیں۔ صبح شام ٹی وی پر کورونا سے خوف پھیلایا جا رہا ہے تو پھر اسپتالوں کا رخ کون کرے گا۔