سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان لاک ڈائون کے مسئلے پر مسلسل کھینچا تانی کا تعلق وفاق اور صوبے کی لڑائی اور سندھ کے شہری اور دیہی طبقوں کی کشمکش سے ثابت ہوتا جارہا ہے۔ اب تو عدالت عظمیٰ نے بھی اشارہ دے دیا ہے کہ صوبہ وفاق کو ٹیکس دینے والا کاروبار بند نہیں کرسکتا۔ صوبے کی جانب سے ریلوے اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بند کرانے کا سبب بھی یہی ہے اور کراچی اور اندرون سندھ کے بارے میں لاک ڈائون اور الگ الگ ایس او پی کا سبب بھی یہی ہے۔ کراچی میں بے انتہا سختی اور گندم کی کٹائی کے لیے کوئی ایس او پی نہیں۔ اسی طرح ٹرینوں کی بندش کا سارا نقصان وفاق کو ہورہا ہے۔ چھوٹے کاروبار کے حوالے سے ایک ہولناک صورت حال سامنے آئی ہے۔ بڑی فوڈ چین، اور برانڈڈ کپڑے اور دیگر اشیا فروخت کرنے والے جو پہلے ہی آن لائن بزنس کرتے تھے انہیں آن لائن کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہیں۔ اجازت چھوٹے دکانداروں کو بھی دی گئی ہے لیکن اس کا فائدہ صرف ملٹی نیشنل فوڈ چین والوں کو ہے یا پہلے سے آن لائن کام کرنے والوں کو۔ چھوٹا دکاندار مارا گیا ہے اس کا براہ راست تعلق کراچی سے ہے۔ اتنے زیادہ کاروبار بند رکھنے پر کراچی میں احتجاج نہ ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ اس شہر پر 35 برس تک اسی تنظیم کو مسلط رکھا گیا جس نے مہاجر کے نام پر سیاست کی اور مہاجر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس سیاست نے سندھی قوم پرستی کو مضبوط کیا اور اب پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت بھی سندھی قوم پرست بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کراچی اور اندرون سندھ کے رہنمائوں کے درمیان بھی سوچ کا بڑا فرق ہے۔ جن لوگوں نے ایم کیو ایم کو مسلط کیا ان ہی لوگوں نے اس خوبصورتی سے اس کے ٹکڑے کیے کہ لوگ حقیقی معنوں میں اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہیں کہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اب دستانے کی جگہ ماسک کہا جاسکتا ہے۔ کسی کے چہرے پر بہادر آباد گروپ لکھا ہے، کوئی ایم کیو ایم پاکستان ہے، کوئی پاک سرزمین پارٹی ہے، کوئی پی آئی بی گروپ ہے، میئر سب کا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بلکہ ظلم ہے کہ جو لوگ الطاف حسین کے نامزد کردہ تھے وہ سب اہم مناصب پر ہیں۔ قومی اسمبلی میں ہیں، سینیٹ میں ہیں، وزیر ہیں، میئر ہیں لیکن یہ قصور وار نہیں۔ سارا قصور الطاف حسین کا تھا۔ اس ایم کیو ایم کی آنکھوں کے سامنے قومی جماعت پیپلز پارٹی نے کراچی کے درجن بھر اداروں پر قبضہ کیا اور سب صوبائی حکومت کے ماتحت ہوگئے لیکن اب ایم کیو ایم اور مہاجر سیاست مرچکی۔ صوبائی حکومت کی قوم پرستی زندہ ہے، نتیجے کے طور پر سندھ میں دو قوانین چل رہے ہیں کراچی کے چھوٹے تاجر مرنے کو ہیں اور سندھ کے وڈیروں کی آٹا ملیں چلنے کو ہیں۔ جتنے مہاجر کے نام پر سیاست کرنے والے تھے ان کا چہرہ سامنے آنے کے باوجود 12مئی، سانحہ بلدیہ ٹائون، 7 اپریل اور درجنوں واقعات کی تحقیقات ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔ مقدمات کی سماعتیں ہی ہورہی ہیں، نئی رپورٹ پھر نئی رپورٹ نئی جے آئی ٹی اور پھر نئی جے آئی ٹی۔ کراچی میں آبادی کے تین بڑے طبقے ہیں ایک اردو بولنے والا طبقہ ہے جو درجنوں طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ دوسرا پشتو بولنے والا ہے اور تیسرا سندھی بولنے والا۔ پنجابی، سرائیکی اور دیگر زبان بولنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں لیکن کاروبار پر پابندی سے سب سے زیادہ متاثر اردو بولنے والے، سرائیکی اور پنجابی ہیں۔ چوں کہ بعض علاقوں میں سندھیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے وہ بھی اس پالیسی سے متاثر ہیں لیکن فرنیچر، کپڑے، جوتے، زیورات وغیرہ سمیت درجنوں ایسے کاروبار ہیں جو خالص کراچی والوں کے تھے سب کے سب ٹھپ پڑے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بڑے بیوپاری سے ان کی دکان پر ملاقات کی جو آن لائن کام کی وجہ سے کھلی تھی۔ بس رونے کی کسر تھی ورنہ ان کا لہجہ آواز سب رندھ گئے تھے۔ ان کے بارہ چودہ سیلز مین ہیں، پچیس ہزار سے کم کسی کی تنخواہ نہیں ہے، دو ماہ سے کسی کاروبار کے بغیر ان کو تنخواہیں دے رہے ہیں اپنا گھر چلارہے ہیں، دکان کے اخراجات الگ ہیں۔ ان کا یہ حال ہے تو ہزار دو ہزار روز بچانے والے کا کیا حال ہوگا۔ سیاسی رہنما تو سب اس معاملے میں خاموش ہیں، لے دے کر ایک آواز کراچی کے لیے اٹھی ہے کہ جلد از جلد کاروبار کھولا جائے۔ یہی آواز نادرا کی زیادتیوں کے خلاف اٹھی تھی۔ یہی آواز واٹر بورڈ کی بدانتظامی کے خلاف اٹھی اور یہی آواز کے الیکٹرک کے خلاف اٹھی۔ صرف آواز نہیں اٹھی بلکہ خود بھی اٹھے اور کے الیکٹرک اور بحریہ ٹائون جیسے بڑے بتوں کو بھی عوام کے قدموں میں جھکا دیا۔ اب یہی آواز حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کی اٹھی ہے۔ لاک ڈائون کی ٹیکنیکل خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایس او پی میں تضاد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ لوگ کورونا سے کم بھوک اور خوف سے زیادہ مرنے کے قریب ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک انصاف جس کے پیٹ میں کراچی کے لیے مروڑ اٹھتا رہتا ہے، کراچی میں کاروبار کھلوانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد میں ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ وہ کسی سازش کے نتیجے میں کراچی کا میئر چاہتے ہیں۔ سندھ کی حکومت چاہتے ہیں اور کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ میں دیہی و شہری کشمکش پر قابو نہ پایا گیا تو کسی بھی وقت اس صورت حال سے کوئی شرانگیز فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور کراچی ایک بار پھر لسانی فسادات کا شکار ہوسکتا ہے۔