کورونا: غیر فطری و غیر روایتی احتیاط کیوں؟

473

کورونا وائرس ہے یا وائرس کے نام پر عالمی سازش، یا یہ وائرس ہی ایسا ہے جسے دنیا میں پہلی بار شناخت کسی سائنس دان نے نہیں کیا بلکہ ایک 58 سالہ فلم رائٹر اسکاٹ زیڈ برنس (Scott Z. Burns) نے کیا وہ بھی اپنے تصوراتی ذہن سے۔ یہ ایک امریکی مصنف ہے جس کی 2011 میں بننے والی فلم کونٹا جن اب سینماؤں میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک حقیقت بن کر اربوں انسانوں کے دماغوں میں چل رہی ہے۔ کورونا کو ایک وائرس کے طور پر اسی فلم میں دکھایا گیا، اس وائرس سے ہونے والی تباہی بھی ایک فلم کی شکل میں 13 کروڑ 65 لاکھ انسان امریکا سمیت کئی ملکوں میں دیکھ چکے ہیں۔ مگر یہ کورونا وائرس اب جبکہ دنیا بھر میں حقیقی طور پر پھیل کر جو خوف و ہراس پھیلا رہا ہے وہ بھی کوئی خوفناک فلم نہیں تو خطرناک ڈراما ہی لگ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ فلم نہیں بلکہ حقیقی وائرس ہے۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس فلم رائٹر کو گرفتار کرکے اس سے پوچھ گچھ کرواتا۔ اس سے یہ سوال کرتا کہ کس نے تم سے یہ فلم لکھوائی تھی؟ مگر یہ میں نہیں کرسکتا کیونکہ دنیا کے 203 ممالک کے حکمران رائٹر کو گرفتار کرکے یا کسی بھی طرح رابطہ کرکے نہیں پوچھ پارہے۔
باوجود اس کے کہ میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ یہ واقعی کوئی وائرس ہے جو انسان سے انسان کو لگتا ہوگا مگر مجھے یقین نہیں ہے۔ میرا دماغ یہ ماننے کو کبھی تیار نہیں ہوگا کہ مذکورہ وائرس انسان کے مرنے کے باوجود بھی زندہ رہتا ہے اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچاسکتا ہے۔
کورونا وائرس پر میں اس لیے شک کررہا ہوں کہ اس جراثیم نے اب تک مجموعی طور پر اور اللہ کی مہربانی سے انسانوں کو اتنا جانی نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس سے خوف پھیلا ہے۔ کورونا وائرس سے پہلے دنیا کے سائنس دان 12 وائرس کا پتا لگا چکے ہیں۔ ان میں انفلوئنزا سب سے خطرناک ثابت ہوا۔ انفلوئنزا جسے فلو یا نزلہ بھی کہا جاتا ہے، وہ جراثیم ہے جس کی لپیٹ میں آکر دنیا میں ہر سال 6 لاکھ 50 ہزار سے زائد لوگ مرجاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سائنس دان دوران تحقیق ہی ان وائرسوں کا علاج بھی دریافت کرچکے تھے۔ لیکن نویل کورونا 19 یا کووڈ 19 ایسا وائرس ہے جس کا پتا لگنے کے چھ ماہ بعد بھی اس کے علاج کا پتا نہیں لگایا جاسکا۔ حالانکہ کوئی بھی مرض وائرس ہی کی تخلیق ہوتا ہے اور اللہ نے ہر مرض کا علاج بھی بتادیا ہے۔ اس لیے مجھے یہ یقین کرنا بھی مشکل ہورہا ہے کہ یہ کوئی قدرتی وائرس ہے۔ اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اس وائرس کے خوف نے دیگر وائرسوں ہی کو کیا امراض کو بھی ختم کردیا ہے۔ یہ وائرس سے زیادہ اللہ کے نظام سے جنگ کرنے والی کوئی سازش لگتی ہے۔ یہ گمان عام ہے اور اس کو استحکام بھی مل رہا ہے کیونکہ اس وائرس کی اطلاعات پھیلانے کے پیچھے بانی بل گیٹس کی موجودگی کی اطلاع بھی عام ہے۔ یہی نہیں بلکہ جس طرح وائرس کا خوف پھیلا کر اس وائرس یا اس وبا کو پھیلانے کے دوران انسانوں کو کورونٹائن کرنے اور آئسولیشن میں رکھنے کا جو حل ڈھونڈا گیا ہے دراصل وہ ہی مشکوک ہے۔ اس طرح کی احتیاط تو شاید طاعون کی وبا کے دوران بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی لپیٹ میں آکر بیمار ہونے کیا مرنے والوں سے بھی نہیں کی گئی تھی۔ کورونا وائرس نے مسلمانوں کا بھی بڑا امتحان لیا۔ چونکہ کسی بھی وائرس کے نتیجے میں آج تک کوئی عبادت اجتماعی طور پر کرنے سے روکی گئی اور نہ ہی کسی وائرس سے جاں بحق یا مرنے والوں کے جسم سے خطرناک جراثیم کے اخراج کی بات اڑائی گئی۔ نتیجے میں لگتا یہی ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس کا خوف انسانوں میں پیدا گیا۔
پاکستان میں اگرچہ اس سے جانی نقصان کا علم 5 مارچ کو واضح ہوا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ صرف وائرس سے لوگ جاں بحق ہونے لگے خوف کے تحت اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی تفصیلات کے بجائے صرف تعداد یومیہ کیا ہر گھنٹے کی بنیاد پر بتائی جانے لگی۔ گو کہ وائرس سے نقصان کی اطلاعات کے ساتھ دنیا بھر کے تقریباً ہر کاروبار کو نقصان پہنچا مگر انٹرنیٹ پر ٹریفک ایک نیا ریکارڈ بنا گیا جس کا فائدہ گوگل اور بل گیٹس کو براہ راست پہنچا۔ انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے اداروں نے ان لوگوں سے بھی فائدہ اٹھایا جو اس سے واقف بھی نہیں تھے۔
بہرحال کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے خوف پھیلانے کے بجائے ضروری اقدامات کرنا چاہیے کیونکہ دنیا کا کوئی نظام تحفظ انسان کے لیے ’’آئسولیشن‘‘ کی اجازت نہیں دیتا، اللہ کی طرف سے آنے والی بیماری سے بچنے کے لیے ایسی غیر انسانی احتیاط کرنے پر کیوں زور دیا جاتا رہا اور جارہا ہے؟ اس وائرس نے ہم مسلمانوں کو اس قدر خوف میں مبتلا کیا کہ ’’آج مرنے کے بعد بھی احتیاط کا شور ہونے لگا۔ ایسے میں ڈر ہے کہ کل انسان کی پیدائش کے موقع پر بھی اسی طرح کا خوف پیدا کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سازشی عناصر کو دنیا پر اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرنا ہے۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کیا کوئی بھی مخلوق پیدا ہوتے وقت بھی تنہا نہیں ہوتی اور مرنے کے بعد بھی اسے نماز جنازہ اور قبرستان تک لے جانے والے سیکڑوں ہزاروں نہیں تو درجنوں تو ہوا کرتے ہیں مگر اب خوف نے اور حکومتی بے جا اقدامات نے تجہیز و تکفین و تدفین ہی کیا نماز جنازہ فرض نمازوں سے بھی دور کردیا۔ کروڑوں انسان ایک ساتھ تمام عبادت گاہوں کو پہلی بار ہی خالی دیکھ رہے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہم مسلمانوں کو اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے سے محروم کرنے کی سازش کی گئی، احتیاط کے نام پر اسلامی عقائد اور طور طریقوں سے منہ موڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ تدفین کے لیے یہ قبرستان میں چند افراد کے داخلے کی اجازت دی گئی۔ نہیں یہ احتیاط نہیں بلکہ مردے کی سوائے بے حرمتی کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایسے عمل کے گناہ گار ہم سب خاص کر حکمران اور علماء کرام بھی ہوںگے۔ اس لیے گناہ سے بچنے کے لیے ایسے اقدامات کے خلاف مزاحمت کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ کیونکہ ایک نہ ایک دن سب ہی کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اس لیے ہم سب کو اپنی موت کی تیاری کرنی چاہیے۔ کیا کوئی مسلمان چاہے گا کہ کسی بھی شہید کو اسلام کے بتائے گئے طریقہ کار کے خلاف سپرد خاک کیا جائے؟
اللہ نے تو مسلمانوں کو شہادت کے درجات پر فائز کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈے مگر ہم انسان آج گناہ میں مبتلا ہونے کے لیے کسی نامعلوم کی طرف سے پھیلائی گئی بیماری اور اس کے لیے غیر فطری احتیاط کے لیے تیار ہوگئے۔ ہے ناں افسوس اور شرمناک بات؟ یہ کون سی اور کیسی احتیاط ہے۔ فطرت انسانیت سے کون لڑ رہا اور کون لڑانے کی کوشش کررہا ہے؟ ذرا سوچیے۔