تالا کھل گیا احتیاط ضروری ہے

291

بالآخر حکومت پاکستان نے ہفتے سے لاک ڈائون کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ فوری طور پر تمام کاروبار زندگی تو بحال نہیں ہو رہا لیکن عوام نے اعلانات سن کر قدرے سکھ کا سانس لیا ہے۔ بعض اعلانات محض آنکھوں میں دھول جھونکنے والے ہیں اور بعض مبہم ہیں جو شاید ہفتے تک واضح ہو سکیں۔ مثال کے طور پر سحری کے بعد سے پانچ بجے شام تک چھوٹی دکانیں کھولنے کی اجازت کا مطلب وہی ہے جو آج کل ہو رہا ہے۔ سحری کے بعد سے کون دکانیں کھولتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ صبح دس بجے دکان کھولی جاتی ہے جو آج کل بھی کھل رہی ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اور لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کھولے بغیر لاک ڈائون کھولنا بے معنی ہے۔ اسی طرح یہ وقت اسکولوں کالجوں کے بارے میں اعلان کا نہیں تھا بلکہ اس معاملے پر فیصلہ عید کے بعد تک اور کورونا کے پھیلائو کی صورتحال دیکھ کر کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہر قسم کی چیز کو اعلانات میں شامل کرکے لاک ڈائون کھولنے کا اعلان کو بڑا بنایا گیا ہے۔ بہرحال اس اعلان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لاک ڈائون مرحلہ وار کھولا جا رہا ہے ہر شعبے کو ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا یہ بڑی اہم بات ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر ایس او پی تیار کرے ہر علاقے اور ہر صوبے کا الگ الگ ایس او پی نہ ہو بلکہ ہر شعبے کا ایس او پی بنایا جائے۔ عوام کو بھی اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے لیکن ایس او پی لوگوں کے تحفظ کے لیے ہونا چاہیے انہیں تنگ کرنے کے لیے نہیں۔ اب تک دیکھا گیا ہے کہ ایس او پی کے واضح نہ ہوئے اور ہر ایک کو ایس او پی کو کوڑا تھما دینے سے اموات بھی ہوگئی ہیں۔ لاک ڈائون کو تو کھولنا ہی تھا۔ وفاق کی طرح صوبہ سندھ بھی پریشان تھا لیکن وفاق کی ضد میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جارہا تھا۔ اب دونوں نے اتفاق رائے سے اس دبائو سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا ہے۔ ابھی پہلا مرحلہ ہے لیکن اس مرحلے میں بہت کچھ نہیں کھولا گیا ہے۔ کریانہ، جنرل اسٹور، اسپتالوں کی او پی ڈیز اور میڈیکل اسٹورز اور ہارڈ ویئر اسٹورز کا الگ الگ نام لے کر فہرست ضرور طویل کر دی گئی ہے اور عملاً ایک نفسیاتی مسئلہ حل کر دیا ہے کہ لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ لاک ڈائون ختم بھی ہو سکتا ہے۔ ہفتے سے قبل وزیراعظم کو پیٹرول پمپس، پبلک ٹرانسپورٹ، کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ کی دکانیں بھی کھولنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ اب لوگ عید کی خریداری بھی کرنا چاہیں گے۔ ان مارکیٹوں کے لیے اوقات کار، افراد کی تعداد، رش روکنے کے انتظامات وغیرہ کرنے ہوں گے جو ٹوکن سسٹم کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔حکومت سندھ کا رویہ لاک ڈائون کے حوالے سے اب بھی وہی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ریلوے نہ کھلنے میں بھی سندھ کا دبائو شامل رہا۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے تو کھل کر کہہ دیا کہ مال اور مارکیٹیں نہیں کھولنے دیں گے۔ اور وزیراعلیٰ سندھ دوسرے انداز میں لاک ڈائون کھولنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو کے بیان کے بعدکہ لوگ اسپتال نہیں آرہے۔ مرض چھپا رہے ہیں انہیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے خوف کا ایک اور بم پھوڑ دیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ سندھ کے بازاروں میں کورونا کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔ اس قسم کے اعلان کا مقصد سوائے خوف پھیلانے کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ حکومت کی مشینری اس قابل ہی نہیں کہ اسپتالوں میں ہی صحیح طریقے سے کورونا کے ٹیسٹ کر سکے کجا کہ بازاروں اور بڑے شاپنگ مالز میں کورونا ٹیسٹنگ کی جائے۔ اگر حکومت نے اس مجہول قسم کے اعلان پر عملدرآمد کی کوشش کی تو دو صورتیں پیدا ہوں گی اور دونوں خطرناک ہوں گی۔ ایک یہ کہ لوگوں کے اچانک ٹیسٹ کرکے ان کو کورونا کا مریض قرار دیا جانے لگے گا جس سے لوگ بازار جانے سے ڈرنے لگیں گے۔ اس طرح لاک ڈائون کھلنے کے باوجود غیر موثر ہو جائے گا۔ کچھ سچ اور کچھ سوشل میڈیا کا کمال ہوگا اور یہ کہانیاں اور حقائق بھی سامنے آئیں گے کہ بے چارا عید کے کپڑے لینے گیا تھا یا گئی تھی اور اسے کورونا کا مریض قرار دے کر قرنطینہ کر دیا گیا۔ عید خراب کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جن دکانوں کو بمشکل کھولنے کی اجازت دی گئی ہے وہاں لوگ آنے سے ڈریں گے۔ دوسرا پہلو مزید خطرناک ہے، حکومت کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگ ٹیسٹ کرانے سے ہی انکار کریں گے اور حکومتی عملے اور عوام میں بحث مباحثے، جھگڑے وغیرہ ہوں گے۔ اب تک تو سنجیدہ حلقے وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ جو بات کریں غیر سنجیدہ ہی ہوتی ہے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ انڈے، مرغی، کٹے، بھینسیں وغیرہ کے ذریعے معیشت سدھارنے کے دعوے مذاق بنے ہوئے ہیں لیکن کورونا کے معاملے میں وزیراعلیٰ بھی غیر سنجیدگی کا شکار بن گئے ہیں۔ ہر روز نیا شوشا چھوڑتے ہیں۔ کبھی سندھ کی لاک ڈائون کی حکمت عملی کو کامیاب قرار دے کر کورونا کی تباہی کم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ سندھ میں کورونا کی تباہی حد سے بڑھ گئی ہے۔ سخت لاک ڈائون کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ پھر اچانک جمعہ کو بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے دوپہر تک کورونا مارا جاتا ہے اس کے بعد ساڑھے چھ سات بجے تک سارا کاروبار جاری رہتا ہے۔ کورونا کے بارے میں حکومتی دعوئوں میں بھی تضادات سامنے آرہے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ سبزی فروش اور کریانہ اسٹور آنے والوں کے بھی ٹیسٹ کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ ذرا وہ یہ تو بتا دیں کہ سندھ میں کس ضلع میں کتنے کریانہ اسٹور ہیں اور سبزی فروشوں کی تعداد تو وہ صرف اپنے رہائشی علاقے ہی کی بتا دیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بات زبان سے نکالتے ہوئے سوچنا چاہیے کیا کہہ رہے ہیں۔ قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ سندھ اور وفاق کی حکومتیں صرف ایک معاملے میں سنجیدہ ہیں اور وہ کورونا پر ایک دوسرے کے خلاف سیاست ہے۔