ماہر معاشیات سونامی حکومت

328

تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے ماہرین معاشیات ملک کی معیشت کے بارے میں بہت فکر مند ہیں وہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے۔ کورونا وائرس سے عوام کو بچاتے ہیں تو غربت کا ایسا سونامی آئے گا جو سونامی حکومت کا نام و نشان مٹا دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان ہاتھ ملانے پر آمادہ نہیں کیونکہ کورونا وائرس نے ان کے دماغ کو مزید کمزور کردیا ہے اور ان کی سوچ کو مفلوج کردیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ آدمی اگر بند گلی میں پھنس جائے تو دوسروں کے تجربات سے استفادہ ہی اسے نئی راہ دکھا سکتے ہیں۔ بھارت نے عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے جو کچھ کیا ہے اس سے سبق سیکھاجا سکتا ہے مگر المیہ یہی ہے اشرافیہ سبق یاد نہیں کرتی مگر ڈگری حاصل کر لیتی ہے۔ بھارت نے مختلف فیکٹریوں، کارخانوں اور پرائیوٹ اداروں میں کام کرنے والے مزدور جو کام چھوڑ چکے تھے ان کے بارے میں مکمل تفصیلات جمع کیں۔ جو مزدور بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے تھے ان کے لیے تین ہزار روپے ماہانہ دے کر انہیں غربت کی دلدل دے نکلا اور غریب خواتین کو مکان دے کر ان کو سچ مچ گھر والی بنا دیا۔ بھارت نے غریبوں کی امداد کرنے کے بہانے نئی راہ نہیں نکالی۔ وہ راشن تقسیم کرنے کے بجائے پکا پکایا کھانا ہر غریب بستی میں تقسیم کررہا ہے۔ قطار میں لگے لوگوں کو دیکھ کر ہمیں وہ زمانہ یاد آگیا جب ہم کھانے لینے کے لیے پلیٹ پکڑے لنگر کے سامنے قطار میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ احساس کفالت پروگرام کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے پروردہ لوگوں کا کہنا ہے کہ کورونا سے لوگ مر رہے ہیں مگر بھوک سے آج تک کوئی نہیں مرا یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ملک پر ایسے لوگ مسلط کردیے گئے ہیں جنہیں ملک کے جغرافیہ کا علم ہے نا قوم کی معاشی مشکلات کا ادارک ہے۔ اگر تحریک انصاف خیبر پختوان خوا کے کوہستانی علاقوں کا سروے کرے تو معلوم ہوگا کہ وہ لوگ زندہ رہنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑ کر کراچی جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ بے روزگار آدمی تو اپنی بھوک نہیں مٹا سکتا اپنے خاندان کا پیٹ کیسے بھرے گا۔
وطن عزیز میں کورونا وائرس سے بہت کم لوگ متاثر ہوئے ہیں مگر دیگر امراض نے عوام کا جینا اجیرن کردیا ہے۔ انہیں پوچھے والا کوئی نہیں اسپتال جائیں تو اچھتوں جیسے سلوک کیا جاتا ہے۔ صدر ایوب خان کے دور میں گند م 14روپے من تھی۔ گلگت اور ایسے ہی دور دراز علاقوں میں ایک من گندم بھیجنے کے لیے ایک من گندم پر کرایہ بہت زیادہ خرچ ہوتا تھا مگر حکومت وہ خرچہ برداشت کرتی تھی اور وہاں پر بھی گندم 14روپے فروخت کی جاتی تھی۔ یوں زمانے کی بات ہے جب شاہرہ قراقرم نہیں بنی تھی کوہستانی علاقوں میں غربت تھی مگر جب سے وہاں کے لوگ عرب ممالک میں گئے ہیں خوشحالی نے ان کا گھر بھی دیکھ لیا ہے۔ مگر اب عرب امارات میں لاک ڈائون کے باعث بیکار بیٹھا ہے۔ حکومت کے پاس ایسے لوگوں کی فہرست موجود ہوگی اس لیے احساس کفالت کا ڈراما کرنے کے بجائے ایسے خاندانوں کی فہرست بنائیں اور انہیں پیسے دیں۔ بیشک قرضے حسنہ ہی دیں مگر انہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم نہ کریں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عرب کفیل دراصل ذوالکفل ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کفیل کے نظام کے ختم کرانے کے لیے عرب امارات کے حکمرانوں سے بات چیت کرے کیونکہ پاکستانی مزدورںکی آدھی آمدنی تو کفیل کھا جاتے ہیں۔