کو ر ونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں اور چین و اسرائیل کے سوا دنیا میں کسی بھی جگہ اب تک اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ قطب جنوبی پر منجمد قطعہ ارض یا انٹارکٹیکا (Antarctica)اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ یہ نامراد وائرس اس برفیلے میدان پر قدم نہیں رکھ سکا، ورنہ کیا امیر اور کیا غریب… ساری دنیا اس کے چنگل میں ہے، اور انسانی حیات کے ساتھ اسبابِ حیات کو بھی اس موذی نے غارت کردیا ہے۔
وبا کے آغاز سے ہی اس فتنہ پرور کی ’’شانِ نزول‘‘ اور جائے ولادت پر گفتگو ہورہی ہے۔ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے، اور چودھراہٹ و کشور کشائی کے منحوس شوق نے دنیا کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اس امکان پر بھی بحث جاری ہے کہ یہ وبا بلکہ قیامتِ صغریٰ حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon)کے ناکام تجربے یا تیاری کے دوران ایک حادثے کا شاخسانہ ہے۔ اس موضوع پر ہم تفصیلی گزارشات قارئین کی نذرکرچکے ہیں۔ یہاں جان کر ’امکان‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی محکمہ سراغرسانی نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اس کے مطابق کورونا وائرس کی تغیر پذیری (Mutation) فطری نوعیت کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش و افزائش فطری ہے اور اسے کسی لیبارٹری نے جنم نہیں دیا۔ یہی مشاہدہ عالمی ادارۂ صحت کا بھی ہے۔
کورونا وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار کی بحث تو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن اس کے پھیلائو کے حوالے سے امریکہ اور چین کے درمیان بیان بازی کی ایک خوفناک جنگ چھڑ چکی ہے جسے دھمکیوں کا تڑکا لگاکر صدر ٹرمپ نے دوآتشہ کردیا ہے۔ چین کے خلاف امریکی صدر کے آتشیں بیانیے کو مخالفین صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ قارئین کو یقیناً علم ہوگا کہ 3 نومبر کو امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں جب صدر کے ساتھ مقننہ، کئی ریاستوں میں گورنر اور مقامی قیادت کا چنائو بھی ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے لیے صدارتی انتخاب کے ساتھ کانگریس میں واضح برتری بھی ضروری ہے تاکہ وہ قوم پرست و قدامت پسند ایجنڈے پر جارحانہ پیش قدمی جاری رکھ سکیں۔ یہاں صدارت چونکہ دو مدتوں تک محدود ہے اس لیے ’فکرِ عاقبت‘ سے بے نیازی امریکی صدور کو ان کی دوسری مدت میں خاصا بے باک بنادیتی ہے۔ اور اس مرحلے پر اگر مقننہ بھی موافق مل جائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کے مخالفین بھی غافل نہیں، انھیں معاملے کی نزاکت کا اندازہ ہے۔ دشمن کو ذلت کے گڑھے میں گرانے کے لیے جگہ جگہ دام ہم رنگِ زمین بچھا دیے گئے ہیں، اور تنقید و الزامات کی تیر اندازی بھی جاری ہے۔ اتفاق سے امریکہ کے تقریباً تمام بڑے شہر کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہیں۔ اس کے مقابلے میں قصبات اور دیہات میں یہ بلا اب تک قدم نہیں جما سکی۔ امریکہ کا سیاسی جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ شہر ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں، جبکہ دیہی امریکہ کو صدر ٹرمپ کا ناقابلِ تسخیر قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو، سان فرانسسکو، ہیوسٹن، دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور دوسرے متاثرہ شہروں کے رئوسائے شہر (Mayors) شاکی ہیں کہ کورونا وائرس سے جنگ میں وفاق تعاون نہیں کررہا۔ نیویارک اور میری لینڈ کے گورنروں سمیت کئی رہنمائوں نے صدر ٹرمپ کے رویّے کو معاندانہ قرار دیا ہے۔ میری لینڈ کے گورنر لیری ہوگن نے انکشاف کیا کہ ان کی ریاست نے جنوبی کوریا سے ٹیسٹنگ کا جو سامان درآمد کیا ہے اس کی حفاظت کے لیے ریاستی فوج تعینات کردی گئی ہے۔ گورنر صاحب کو ڈر ہے کہ وفاق اسے ہتھیانے کے درپے ہے۔
صدر ٹرمپ کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ اس مفروضے پر معاملے کو ٹالتے رہے کہ کورونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 کا انکشاف انتہائی سنسنی خیز ہے۔ اپریل کی 16 تاریخ کو مذکورہ ٹیلی ویژن نے بتایا کہ امریکہ کی عسکری خفیہ ایجنسیوں کو نومبر کے دوسرے ہفتے میں ووہان (چین) سے وبا کے آغاز کا اندازہ ہوچکا تھا۔ بیماری پھوٹ پڑنے کی خبر اُس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی، لیکن چین کو اس کے بارے میں علم تھا۔ امریکی ایجنسیوں نے مبینہ طور پر اس کے بارے میں صدرٹرمپ کو بتادیا، لیکن امریکی صدر نے اس خبر میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسی کے ساتھ امریکیوں نے اپنے دو معتمد عسکری اتحادیوں یعنی نیٹو (NATO) اور اسرائیلی مسلح افواج (IDF)کو بھی متوقع خطرے سے مطلع کردیا۔ اسرائیل کی عسکری قیادت نے نومبر ہی سے علاقے (مشرق وسطیٰ) میں اس وبا کے ممکنہ پھیلائوکا جائزہ لینا شروع کردیا تھا، اسرائیلی فوج نے ممکنہ وبا کے بارے میں اسرائیلی حکومت خاص طور سے وزارتِ صحت کو بھی مطلع بلکہ متنبہ کیا، لیکن صدر ٹرمپ کی طرح اسرائیل کی سیاسی قیادت نے بھی پانی سر سے اونچا ہونے تک کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے۔ کچھ اسی قسم کا رویہ یورپی حکومتوں کا بھی رہا۔ مستعد و ہردم چوکنا رہنے والے ممالک کی جانب سے یہ غفلت کچھ عجیب سی محسوس ہورہی ہے۔
اس انسانی المیے پر بھی صدر ٹرمپ جماعتی سیاست سے باز نہ رہ سکے، اور وائرس کے حوالے سے وہ اپنے مخالفین کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ نائب صدر اور اپنے سرجن جنرل کو ہدایت کی کہ نیویارک کے گورنر اور مشی گن کی ’عورت‘ سے رابطے کی ضرورت نہیں۔ عورت سے مراد مشی گن کی گورنر وہٹمر ہیں۔ محترمہ وہٹمر اور نیویارک کے گورنر کومو وفاقی حکومت کی جانب سے سردمہری کا شکوہ کررہے ہیں۔
اس رویّے کی بنا پر صدر ٹرمپ کے مخالفین کے ساتھ عام امریکی بھی ان کے طرزِ فکر و عمل سے مطمئن نہیں۔ متاثرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات میں بہت تاخیر کی اور اب غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے عذرلنگ تراش رہے ہیں۔ حال ہی میں خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مشی گن، پنسلوانیا اور وسکونسن کے بارے میں رائے عامہ کے جائزے کی جو رپورٹ شایع کی ہے اُس کے مطابق ان ریاستوں میں 45 فی صد افراد نے جوبائیڈن اور 39 فی صد نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ نے ان تینوں ریاستوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس جائزے کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 3 نومبر کی پولنگ سے پہلے کسی پول پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن وہ شدید دبائو میں نظر آرہے ہیں۔ صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان کا زیادہ وقت انسدادِ کورونا کے لیے حکومتی اقدامات کی تفصیل کے بجائے مبینہ تاخیر کی تردید میں گزرتا ہے۔
سیاسی دبائو سے نکلنے کے لیے صدر ٹرمپ نے بیانات کی توپوں کا رخ چین کی طرف کردیا ہے۔ وہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام چین پر لگا رہے ہیں۔ ان الزامات کی نوعیت بھی ان کے بیانات میں بدلتی رہتی ہے۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے سمیات (Virology) میں تولد ہوا اور چینیوں کی نالائقی سے leak ہوگیا۔ جب زیادہ غصے میں ہوں تو وائرس جان بوجھ کر پھیلانے کا الزام بھی چین کے سر پر ٹانک دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین نے وائرس کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اس کے پھیلائو سے امریکہ کو جان کر لاعلم رکھا گیا۔ اپنے الزام میں منطق کا پیوند لگاتے ہوئے وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بیجنگ نے یہ سب کچھ صدارتی انتخابات میں اُنہیں ہرانے کے لیے کیا ہے۔ تاہم وہ بار بار اس یقین کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کی ان کی کوششیں صدارتی انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوں گی، اور صدارتی چنائو کو ریفرنڈم بنانے کی کوشش ناکام ہوجائے گی۔
29 اپریل کو اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے چین پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس الزام کو دہرایا کہ کورونا وائرس کی وبا کو چین میں روکا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے ضمن میں شفافیت اختیار نہیں کی گئی۔ امریکی صدر نے کہا کہ اگر یہ ایک غلطی تھی تو چین کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے، لیکن اگروہ اس کا ذمہ دار ہے تو بیجنگ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ جب ان سے جرمن اخبار Bild کے اس اداریے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا جس میں بیجنگ سے کورونا وائرس کے باعث جرمنی کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے 130ارب یورو ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ رقم کی بات کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ابھی امریکہ نے حتمی رقم کا تعین نہیں کیا، البتہ اس پر سوچ بچار جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے پوری دنیا میں تباہی آئی ہے۔ صدر ٹرمپ مبہم سی دھمکی بھی دے گئے کہ ان کے پاس ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں۔
تلخ و ترش بیانات کے باوجود چین امریکہ تجارت اب بھی صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہے۔ جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان زراعت سے متعلق ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت چین نے امریکہ سے کئی ارب ڈالر کی غذائی اجناس، دودھ اور جانوروں کا گوشت خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ حالیہ تنازعے سے پہلے چین اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوچکے تھے، پھر اچانک یہ سب کیوں ہوگیا؟ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر ’غلطی سے وبا کے پھیلنے‘ اور ’جان بوجھ کر پھیلانے‘ کے امکانات کو الگ الگ رکھ کر واپسی کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بہت صراحت سے کہا کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
ہرجانے کے حوالے سے30 اپریل کو ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے انکشاف کیا کہ امریکہ سزا کے طور پر چینی حکومت کے خریدے گئے کچھ بانڈز کو تحلیل کرنے اور سود کی ادائیگی معطل کرنے پر غور کررہا ہے۔ چچا سام قرض لینے کے لیے بانڈز فروخت کرتے ہیں۔ پُرکشش شرح سود اور امریکی حکومت کی ساکھ کی بنا پر دوسرے ممالک بھی یہ بانڈ خریدکر سود سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جبکہ راس المال بھی محفوظ رہتا ہے۔ بانڈر اور Treasury Bills کی شکل میں امریکہ پر چینی قرضے کا حجم 1200ارب ڈالر کے قریب ہے جو کُل غیر ملکی قرض کا 19فیصد ہے۔ واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس انکشاف کے منظرعام پر آتے ہی چین کا ’غیر سرکاری و خاموش‘ لیکن شدید ردعمل سامنے آیا، اور صدر ٹرمپ کے مشیر اقتصادی امور لیری کڈلو نے اس خبر کی سختی سے تردید کردی۔ انھوں نے کہا کہ قرضوں کے حوالے سے تمام وعدے اور عہد و پیمان انتہائی مقدس ہیں اور امریکہ اپنی ساکھ کو آلودہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
چین کے رویّے پر امریکہ کے ساتھ اب یورپی رہنما بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمی نوئل میکرون نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے معاملے میں چین نے شفاف انداز میں اعداد وشمار جاری نہیں کیے، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کررہے ہیں۔
3 مئی کو امریکی ٹیلی ویژن ABC سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اس وائرس نے چین کی لیبارٹری میں جنم لیا۔ انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ان رپورٹوں سے اتفاق کیا جن میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس مصنوعی نہیں بلکہ فطری ہے، لیکن وہ اس امکان کو مسترد کرنے کو تیار نہیں کہ اس کی ولادت ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے سمیات میں ہوئی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ چین ایک عرصے سے دنیا میں سمی آلودگی یا infection پھیلارہا ہے اور وہاں بہت سے غیر معیاری تجربہ خانے موجود ہیں۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ ذمہ داروں کے احتساب کے لیے پُرعزم ہیں۔
4 مئی کو امریکی وزارتِ داخلی سلامتی (DHS) نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ جنوری میں وباکے زور پکڑ جانے کے باوجود چین نے اس کی سنگینی پر پردہ ڈالے رکھا اور بیجنگ یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ یہ ایک موسمیاتی اور معمولی و محدود علاقائی وائرس ہے۔ اسی کے ساتھ چین نے ماسک، حفاظتی لباس، وینٹی لیٹر اور وبا سے نمٹنے کے لیے ضروری سامان کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ نہ صرف چینی کارخانوں کو اس سامان کی برآمد سے منع کردیا گیا بلکہ امریکہ، یورپ اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک سے یہ سامان بڑی تعداد میں درآمد کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا مارچ کے مہینے میں پاکستان سے فیس ماسک چین کو اسمگل کرنے کی ایک خبر سامنے آئی تھی جس کا پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے بھی نوٹس لیا تھا۔
توقع اور روایات کے عین مطابق چین ان الزامات کا بہت جچا تلا اور غیر جذباتی جواب دے رہا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کی جانب سے الزام تراشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ وائرس پر قابو پانے میں ناکامی کا ملبہ چین پر گرانے کے بجائے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ بیجنگ اس آفت سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کرنے کو تیار ہے اور اس مرحلے پر منفی بیانات کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہلاکتوں کے اعداد وشمار کے بارے میں چینی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کیاکہ ابتدائی اعداد و شمار میں بعض نقائص تھے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ آفت کے آغاز پر اسپتالوں میں محدود جگہ اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے رابطوں کا فقدان تھا۔ اس بنا پر ہلاکتوں کی تعداد صحیح طور پر مرتب نہیں کی جاسکی۔ مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد نظرثانی شدہ اعداد و شمار جاری کردیے گئے ہیں۔ بیجنگ نے ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ چینی حکومت کو اس کی ضرورت تھی۔
اسی کے ساتھ امریکہ کی کئی عدالتوں میں متاثرین نے چین کے خلاف نجی استغاثے دائر کردیے ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق یہ وائرس ووہان کے مچھلی بازار سے پھیلا ہے، جہاں گوشت، مچھلیاں اور سبزی کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازار میں حفظانِ صحت کے ضابطوں کا نفاذ چینی حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں بیجنگ ناکام رہا۔ اس غلطی سے کورونا وائرس پھیلا جس نے سائلین کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر چین نے خوراک کے حوالے سے مناسب قوانین نافذ کیے ہوتے تو وائرس نہ پھیلتا۔ چنانچہ چینی حکومت کو اس نقصان کے ازالے کا حکم دیا جائے۔ خیال ہے کہ ان درخواستوں میں ہرجانے کے جو دعوے کیے جارہے ہیں ان کا مجموعی حجم 2000 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی عدالت کا فیصلہ چین کے لیے قابلِ قبول نہ ہوگا اور اس کے لیے عالمی ادارۂ صحت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملے پر 30 اپریل کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی غور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران امریکہ اور چین کے مندوبین وائرس کے نقطہ آغاز پر بحث کرتے رہے۔ برطانیہ اور فرانس کے سفارت کاروں نے اس حوالے سے سلامتی کونسل کی عدم دلچسپی بلکہ سردمہری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس کے بعد کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران کورونا وائرس کے پھیلائو سے متعلق سلامتی کونسل کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ چین نے کسی بھی قدم کی مخالفت کرتے ہوئے وائرس کے معاملے کو سلامتی کونسل کے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دیا، جبکہ امریکہ کی جانب سے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ کورونا وائرس سے متعلق کونسل کے اعلانات میں مقامِ ولادت کے طور پر چین کا حوالہ ضروری ہے۔
دوسری طرف عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تعاون پر زور دے رہے ہیں۔ WHO کا کہنا ہے کہ اس عالمی آفت سے نمٹنے کے لیے ساری دنیا میں مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، اور اس موقع پر انگشت نمائی اور الزام تراشی سے وبا کے خلاف کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ یہ کہہ کر عالمی ادارۂ صحت کی امداد معطل کرچکے ہیں کہ ادارہ چین کا طرف دار ہے۔
…٭…٭…٭…