ملک میں کوئی نظام درست بھی ہے؟؟

293

کسی بھی ریاست کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کا نظام نہ صرف درست ہو بلکہ مضبوط بھی ہو۔ لیکن دُنیا میں ایک ریاست پاکستان ایسی ریاست ہے جس کے مختلف اداروں کے سربراہ یا مختلف شعبوں کے ذمے داران اپنے اپنے نظام کی ناکامی کا اعتراف اور اعلان کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعلان عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضی امین نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں نظام عدل تقریباً ختم ہو چکا۔ اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے سربراہ بھی ایسی ہی بات کر چکے ہیں۔ ان سے صرف ایک روز قبل ممتاز اور معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے نہایت خوفناک انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عوام کا نظام زکوٰۃ سے اعتماد اٹھ گیا، نیا نظام تشکیل دینا ہوگا۔ مفتی تقی عثمانی نے تجویز کیا ہے کہ کسی بھی تبدیلی سے قبل اچھی طرح نظرثانی کی جائے ایسا نہ ہو کہ مقدس فرض بدعنوانی اور بدانتظامی کا شکار ہو جائے۔ انہوں نے درست نشاندہی کی کہ عوام کے لیے براہ راست غریبوں کو زکوٰۃ دینے کا نظام لانا ہوگا۔ انہوں نے یہ حقیقت دہرائی ہے کہ لوگ حکومت کو زکوٰۃ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ فلاں شعبہ کام نہیں کر رہا۔ بیوروکریسی کو وہ مکمل نااہل قرار دے چکے۔ سارے نظام کو کرپٹ بھی کہہ چکے۔ اب پھر انہوں نے وفاق کی 16 وزارتوں کو ریڈ لیٹر جاری کیے ہیں کیونکہ ان کی کارکردگی ناقص ہے۔ ملک کے معاشی نظام کے ذمے دار یہی کہتے آرہے ہیں کہ ٹیکسوں کا نظام تباہ ہو چکا۔ اسٹیٹ بینک کے سربراہ بینکنگ نظام کو تباہ قرار دے چکے ہیں۔ پولیس کے سربراہ بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ صرف ایک فورس کی جانب سے کبھی اعتراف سامنے نہیں آیا۔ بہرحال ملک کے اداروں اور ان کے نظام کی حالت اس قدر خراب ہے کہ جوں ہی کوئی امتحان سامنے آتا ہے سارا نظام دھڑام سے نیچے آجاتا ہے۔ زلزلہ، سیلاب یا اب کورونا وبا، ان امتحانات میں تمام نظام ناکام نظر آرہا ہے۔ صحت کے نظام کے بارے میں تو لوگ جانتے تھے کہ اسپتال جانا موت کو گلے لگانا اور لاکھوں روپے ادا کرنا ہے۔ لیکن کورونا کے پھیلائو نے تو ثابت کردیا کہ حکومت کے پاس اعداد وشمار ہی نہیں۔ ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی سازو سامان نہیں۔ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا نظام نہیں۔ غرض سب کچھ تباہی کے قریب ہے۔ تازہ انکشاف میں نظام عدل کے تقریباً ختم ہونے کا اعتراف عدلیہ کے بڑے بڑے ریمارکس دینے والوں کے لیے کافی ہے۔ ہر شعبے کے بارے میں آزادی کے ساتھ تبصرے کیے جاتے ہیں لیکن اپنے شعبے کی حالت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر نظام عدل کام کر رہا ہو تو ملک کا سربراہ جنگ کے دوران بھی مطمئن رہتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے نظام زکوٰۃ کے بارے میں جو کہا ہے وہ بہت کم ہے لیکن علما کا تھوڑا کہا بھی بہت ہوتا ہے۔ اس نظام کی کرپشن اور غریبوں کے لیے جمع کیے گئے زکوٰۃ کے مال کو جس طرح ہڑپ کیا جاتا ہے اس سے سب ہی واقف ہیں ایک چھوٹے سے علاقے کی زکوٰۃ کمیٹی میں شمولیت کے لیے لوگ سرتوڑ کوششیں کرتے ہیں، تعلقات استعمال کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کے اربوں روپے لوٹے جانے کے مقدمات مختلف ادوار میں سامنے آچکے ہیں۔ بینکوں سے زکوٰۃ کٹوتی کا جو نظام ہے اس میں زبردستی زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے۔ اس سال تو کورونا کی وجہ سے لاک ڈائون تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے یکم رمضان سے قبل بڑی رقم بینکوں سے نکلوا لی۔ اس سے پہلے تو رمضان سے قبل لوگ اربوں روپے بینکوں سے نکال لیتے تھے۔ یہ رویہ صاف ظاہر کرتا تھا کہ لوگوں کو حکومت کے نظام زکوٰۃ پر اعتبار نہیں۔ جعلی شناختی کارڈز، گھریلو ملازموں کے شناختی کارڈز پر زکوٰۃ فنڈز کی رقوم حاصل کی گئیں۔ بینکوں میں بھی بہت سے لوگ یہ شکایات کرتے تھے کہ ان کی زکوٰۃ غلط کاٹی گئی۔ رقم پر سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ کٹ گئی۔ بعض کھاتیداروں کی جانب سے سرٹیفکیٹ ہونے کے باوجود زکوٰۃ کٹوتی کی شکایات بھی آچکی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے تو صرف اشارہ دیا ہے کہ یہ نظام بدلنا ہوگا لیکن اس تبدیلی کے عمل کے دوران کوئی اور شب خون نہ مار دیا جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اچھی طرح نظرثانی کی جائے ایسا نہ ہو کہ مقدس فرض بدعنوانی اور بدانتظامی کا شکار نہ ہو جائے۔ مفتی صاحب کا خدشہ بالکل درست ہے۔ بدانتظامیہ تو ہر شعبے میں نظر آتی ہے لیکن بدعنوانی ہر اس شعبے میں ہے جہاں پیسہ ہے اور ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ کسی شعبے میں ایمانداری نہیں رہی۔ جب ایماندار اور خدا کا خوف رکھنے والوں کو معاملات سے دور کر دیا جائے گا تو وہی نتائج آئیں گے جو پاکستان میں آرہے ہیں۔ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ زکوٰۃ کے نظام میں اگر تبدیلی لانا ہے تو پہلے پارلیمنٹ میں اچھے لوگوں کو پہنچایا جائے۔ کرپشن کرنے والوں اور کرپٹ لوگوں کو بچانے والوں پر مشتمل پارلیمنٹ جو بھی نظرثانی کرے گی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ کیسی ہوگی۔ کتنے چور دروازے مزید کھول دیے جائیں گے۔ پاکستان میں مختلف اداروں کے نظام کی تباہی کا سروے کیا جائے تو نتائج یہی آئیں گے کہ کسی ادارے کا نظام ٹھیک نہیں ہے۔ پورے ملک میں بجلی کا نظام ٹھیک نہیں، پانی کا نظام ٹھیک نہیں ہے، صحت کے نظام کا تو روز پتا چل رہا ہے۔ سیکیورٹی کا نظام بھی تباہ ہے۔ ٹیکسوں کا نظام، معیشت کا نظام کون سا نظام ہے جو ٹھیک ہے۔ یا تو باہر سے آدمی آتا ہے یا باہر سے قانون اور حکم آتا ہے۔ پھر باہر سے پیسہ آتا ہے اس سے معیشت چلتی ہے۔ اگر اس صورتحال پر کوئی تبصرہ کیا جائے تو ریاست دشمن اور ملک دشمن کہا جاتا ہے۔ جو ادارے مقدس قرار دیے جاتے ہیں ان کا بھی تجزیہ کیا جائے تو صورتحال اچھی نہیں نکلے گی۔ اس خرابی کا واحد حل یہی ہے کہ ملک کا نظام اللہ کے احکامات کے مطابق چلایا جائے۔ جس نظام سے بغاوت کرکے مسلمانوں نے پاکستان بنایا تھا پاکستان پر وہی نظام مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایسے نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے۔