میڈیا… اعتبار کی بے اعتباری

496

ڈاکٹر طاہر مسعود
ممتاز کالم نگار جاوید چودھری نے یوٹیوب کے اپنے پروگرام میں احادیثِ نبویؐ اور علمِ فلکیات کی روشنی میں انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ 18 مئی سے شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے جو دلائل دیے ہیں وہ عقلی طور پر تو قابل قبول ہی محسوس ہوتے ہیں، لیکن حقیقتاً یہ قابلِ قبول ہیں یا نہیں، اس کو جاننے کے لیے انتظار کی گھڑیاں زیادہ دور نہیں۔ ایک ڈیڑھ ہفتے ہی میں اصل صورتِ حال سامنے آجائے گی۔
کورونا کے جرثومے نے ساری دنیا کے نظام کو جس طرح تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے، اس پر طرح طرح کے تجزیے سامنے آرہے ہیں۔ کوئی اسے عالمی سازش سے تعبیر کررہا ہے، کوئی اسے خدائی عذاب قرار دے رہا ہے، کسی کے خیال میں یہ امریکا اور چین کی باہمی مخاصمت کا نتیجہ ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ تجزیے کے اتنے اختلافات کی وجہ اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ ہمارے پاس مستند علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جس پر سب یا اکثریت کا اتفاقِ رائے ہوسکے۔ علم اور اطلاع کے ذرائع اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ کس بات اور کس تجزیے کو درست مانے، اور کس سے انکار کرے… خصوصاً ایسی صورت میں کہ ہر اطلاع اور ہر تجزیہ اپنی درستی اور استناد پہ اصرار کرتا ہو۔ یہ دور میڈیا کا ہے۔ ہمارے پاس اطلاع و معلومات کا واحد اور ہمہ گیر ذریعہ میڈیا ہی ہے۔ چناںچہ ہم جو بھی رائے قائم کرتے ہیں، میڈیا ہی کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ حالات و واقعات نیز تجربات نے ثابت کیا ہے کہ میڈیا ہمیشہ اور ہر حال میں درست اطلاع نہیں دیتا، اور یہ کہ لازم نہیں کہ اس کے تجزیے بھی مبنی بر صداقت ہوں۔ حقائق کو چھپانا، آدھی حقیقت بیان کرنا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا… یہ بھی میڈیا ہی کرتا ہے۔ میڈیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نے اسے ایک معاشی طاقت بھی بنادیا ہے، اور اس کے ساتھ اقتصادی اور معاشی مفادات بھی وابستہ ہوگئے ہیں۔ چناںچہ ویسٹڈ انٹرسٹ کے سبب میڈیا بسا اوقات جان بوجھ کر سیاسی اور معاشی ٹائی کونز کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے، اور ایسے حقائق اور تجزیوں کو معاشرے میں فلوٹ کرتا ہے جو درست نہیں ہوتے، بلکہ جن کے پیچھے کچھ مخصوص مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔ میڈیا کی ان سرگرمیوں کا جائزہ لینے اور انہیں بے نقاب کرنے کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں۔ پھر میڈیا کی طاقت ایسی نہیں کہ اسے آسانی سے کمزور کیا جاسکے، یا اس کے اعتبار و استناد کو کھلے بندوں چیلنج کیا جاسکے، اس لیے کہ میڈیا سچ بھی بولتا ہے، اطلاعات و واقعات کی مسلسل و متواتر رپورٹنگ بھی کرتا ہے جس میں بہرحال سچائی بھی ہوتی ہے۔ اگر اس سچ میں جھوٹ بھی رلا ملا ہو تو کون ہے جو جھوٹ کو سچ سے الگ کرسکے! یا رپورٹنگ سے مبالغہ اور غلط بیانی کو جدا کرکے حقیقت کو اس کے اصل رنگ و روپ میں پیش کرسکے۔ میڈیا کا متبادل بھی میڈیا ہی ہوسکتا ہے۔ اور جب تک میڈیا انسانی ہاتھوں میں ہے، اس سے غلطی اور غلط بیانی کا سہواً یا دانستہ امکان پوری طرح موجود ہے اور رہے گا۔
آج کی دنیا میڈیا کی قیدی ہے۔ وہ چاروں طرف سے میڈیا کے اثرات میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے معاشرے پر اثرات اتنے گہرے ہیں کہ اگر دنیا بھر کے میڈیا کو ایک دن کے لیے بھی اپنے وظائف ادا کرنے سے روک دیا جائے تو دنیا کا نظام ٹھپ ہوکر رہ جائے گا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ آج جب کہ دنیا میں کورونا وائرس کے حملے نے ہر شعبۂ زندگی کو مفلوج و معطل کرکے رکھ دیا ہے، میڈیا اپنا کام بدستور کررہا ہے، اور آج دنیا اگر پوری طرح جڑی ہوئی اور متحد ہے تو اسی میڈیا کی وجہ سے۔ لہٰذا میڈیا کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ زندگی کی ساری دل چسپیاں، ساری ہمہ ہمی، ساری گہما گہمی اسی میڈیا کے سبب سے ہے۔ جب اس کے فوائد اور اثرات اتنے گہرے ہیں تو اس کے نقصانات بھی اسی درجے پہ ہوں گے۔ جو میڈیا زندگی کو نعمتوں اور سہولتوں سے ہم کنار کررہا ہے، وہ مصیبتوں اور زحمتوں کی افزائش کا سبب بھی بن رہا ہوگا۔ اس پہلو پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے دنوں ایک مُبلّغ و مصلح عالمِ دین نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا میڈیا ہو یا عالمی میڈیا… یہ سبھی جھوٹ بولتے ہیں۔ اس پہ میڈیا کے ایک حصے میں شدید ردعمل کا مظاہرہ ہوا۔ نتیجے میں مبلغِ دین صاحب کو معافی مانگنی پڑگئی، یہ الگ بات کہ سوشل میڈیا میں میڈیا کے اس حصے کے خلاف وہ طوفان اٹھا کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔ یہ طوفان محض ایک واقعے کا ردعمل نہ تھا، بلکہ میڈیا کے خلاف وہ غم و غصہ جو لوگوںکے دلوں میں عرصے سے جمع ہورہا تھا، اس کا پھٹ پڑنا تھا۔ میڈیا کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے ویڈیوز سامنے لائی جانے لگیں۔ اینکروں کے لتّے لیے جانے لگے۔ اور تو اور خود بہت سے چینلوں نے بھی گواہی دی کہ مُبلّغ موصوف نے جو کہا، سچ ہی کہا۔ یہ صورتِ حال متقاضی ہے کہ میڈیا کے کردار اور اس کے اثرات کو سنجیدہ غور و خوض کا موضوع بنایا جائے۔ لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ بند کنڈی کھولے کون؟ شاید وقت آگیا ہے کہ حکومت ایک غیر جانب دار کمیشن قائم کرے جس میں ہر اہم اور قابلِ ذکر شعبۂ زندگی سے صاف ستھرے کردار کی شہرت رکھنے والوں کی نمائندگی ہو۔ یہ کمیشن ان سوالوں پر غور کرے کہ:
-1 میڈیا ہماری قومی زندگی کو کس طرح متاثر کررہا ہے۔ مثبت خطوط میں یا منفی طریقے سے؟
-2 کیا میڈیا ہمیشہ سچائی کو پیش کرتا ہے، یا اس میں جھوٹ کی ملاوٹ بھی ہوتی ہے؟
-3 میڈیا کے تجارتی مفادات اس کی پیشہ ورانہ حیثیت اور کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں تو اس کے تدارک کا طریقہ کیا ہے؟
-4 میڈیا میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی سرمایہ کاری کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ مقاصد میڈیا پر کس طرح اثرانداز ہورہے ہیں؟
-5 میڈیا کی تعلیم کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ میڈیا کے معیار میں اضافہ اور کارکردگی بہتر ہورہی ہے یا اس میں انحطاط نمایاں ہے؟
-6 میڈیا کی نگرانی کے ادارے پریس کونسل اور پیمرا کتنے مؤثر ہیں اور ان کے اقدامات میڈیا کے قبلے کو درست رکھنے میں کتنے بارآور ہیں؟
یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالات ہیں جن پر کمیشن غور کرے، اور اس کی رپورٹ کو سرد خانے کی نذر کرنے کے بجائے منظرعام پر لاکر اس کی سفارشات کی روشنی میں ’’قومی میڈیا پالیسی‘‘ تشکیل دی جائے، تاکہ میڈیا جو شتر بے مہار ہونے کا عمومی گلہ شکوہ پیدا کرتا ہے، اس میں مقصدیت اور پاکستانیت کا جذبہ پیدا ہو۔