حق تلفی

483

جون ایلیا نے کہا تھا: کسی بھی حسین عورت کو کسی مرد کے ساتھ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے میری ذاتی حق تلفی ہوئی ہو۔ پاکستان میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اختیارات اور وسائل مرکز کا پہلو گرما رہے تھے تو صوبوں کو لگتا تھا ان کی حق تلفی ہورہی ہے۔گزشتہ دس برس سے یہ شوخ دیدہ صوبوںکے آنگن میں زیادہ مچل رہی ہے تو مرکز دبلا ہوا جارہا ہے۔ کان پک گئے تھے یہ سن سن کرکہ جب تک صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی تقسیم میں ان کا جائز حصہ نہیں دیا جائے گا، صوبائی خودمختاری کو یقینی نہیں بنایا جائے گا پا کستان بحرانوں میں گھرا رہے گا، عوام یونہی روتے بسورتے رہیں گے۔ اپریل 2010 میں تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت سے اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی۔ ایک خواب کو تعبیر ملی۔ صوبوں کو زیادہ اختیار اور وسائل میسر آگئے۔ اس ترمیم کے ذریعے پندرہ وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل کی گئیں۔ جن میں صحت اور تعلیم کی وزارتیں بھی شامل تھیں۔ وفاقی محاصل میں صوبوں کا حصہ 48فی صد سے بڑھا کر 57.5فی صد کردیا گیا۔ جب کہ وفاق کا حصہ 52فی صد سے کم کرکے 42.5فی صد ہوگیا۔ اس ترمیم کو عملی شکل اختیار کیے دس برس گزر گئے ہیں عوام کو تو کچھ نہ ملا البتہ ایک بالکل برعکس صورتحال پیدا ہوگئی۔ کہا جا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے وفاق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وفاقی محاصل میں سے صوبوں کو حصہ دینے، سود کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ کرنے کے بعد لازمی ترقیاتی اخراجات کے لیے بھی وفاق کے پا س کچھ نہیں بچتا۔
ایک زمانہ تھا تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم کی سب سے بڑی حامی تھی۔ سات برس سے وہ خیبر پختون خوا میں اٹھارویں ترمیم سے حاصل صوبائی خود مختاری اور مالی وسائل کے مزے لے رہی تھی۔ دوبرس سے وہ تین صوبوں میں حکمران ہے۔ اس نے کبھی وفاق سے ملنے والے محاصل سے ایک روپے کی دستبرداری کا بھی اعلان نہیں کیا لیکن اس وقت جب کہ قوم کورونا سے نبرد آزما ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں تجربہ حاصل ہوگیا ہے ہمارے خیال میں اٹھارویں ترمیم میں کچھ ایریاز ایسے ہیں جن میں کچھ گیپ نظر آئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں بیٹھ کر اس پر کچھ فیصلہ کرسکتی ہیں‘‘۔ دیگر وزراء کرام بھی کچھ ایسی ہی آرا کا اظہار کررہے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ حقیقی حکمرانوں کی جانب سے ایسا ہی حکم ملا ہے۔
ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کی دلیل میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ کنکرنٹ لسٹ میں بہت سی وزارتیں ایسی تھیں جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی تعاون سے کام کرتی تھیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وہ سب صوبوں کی تحویل میں چلی گئیں۔ اب وفاقی حکومت کا ان وزارتوںکے معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں رہا۔ مثال کے طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی حکومت کا معاملہ ہے جس میں اب وفاق دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ کورونا کی وبا نے پورے پاکستان کو گرفت میں لیا تب ہر طرف سے یہ آواز بلند ہورہی ہے کہ حکومت کو ایک مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یعنی صحت کے شعبے سے وابستہ تمام اداروں، محکموں اور صوبوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جاتا اور ایک مشترکہ پالیسی ترتیب دی جائے۔ ظاہر ہے یہ کام وفاقی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ لیکن اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ صوبائی حکومتیں کہتی ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے ہم خود کریں گے۔ وفاقی حکومت کون ہوتی ہے مداخلت کرنے والی۔ لیکن ظاہر ہے یہ مناسب بات نہیں۔ ایک ایسا معاملہ جس سے پورا ملک متاثر ہے وفاقی حکومت اس معاملے سے کیسے باہر رہ سکتی ہے۔ گالی وفاقی حکومت کو ہی پڑتی ہے۔ ایک ایسی مصیبت جو پوری قوت سے قومی یکجہتی کا تقاضا کررہی ہے اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے بدترین انتشار کا شکار ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد این ایف سی کمیشن ایوارڈ بھی وفاقی حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ وفاقی حکومت اور تمام صوبے ایک سات مل کر بیٹھتے، باہمی افہام وتفہیم سے معاملات طے کرتے تھے کہ اس صوبے کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے لہٰذا اس کا حصہ اتنا ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ باب بھی بند ہو گیا ہے۔ اب سب کچھ فکس ہے۔ اگر محاصل کی مد میں سو روپے جمع ہوئے ہیں تو پندرہ روپے تو اخراجات کی مد میں اور مزید پندرہ روپے دیگر معاملات کے لیے وفاقی حکومت لے لے باقی جو ستر روپے بچتے ہیں وہ آبادی کے لحاظ سے صوبوں میں تقسیم ہوں گے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ سود کی ادائیگی بجٹ کا چالیس فی صد لے جاتی ہے اسی طرح دفاع پر بھی چالیس فی صد خرچ کرنا ضروری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی صورت ان شعبوں کو مکمل ادائیگی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس پیسہ ہی نہیں بچتا۔ ٹیکسوں کے ذریعے جو پیسہ جمع ہوتا ہے وہ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے جن کے اوپر نہ دفاع کی ذمے داری ہے نہ سود کی ادائیگیوں کی۔ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے لیے سندھ حکومت اور دوسرے صوبوں کا تعاون چاہیے اور ساتھ ہی اپوزیشن کا بھی جس سے عمران خان ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے لیکن چونکہ اس ساری چھیڑ چھاڑ کے پیچھے ڈنڈا ہے تو عمران خان اور نیب کو مسلم لیگ ن کو کچھ اسپیس دینا ہوگا۔ خاتمہ تو ممکن نہیں اٹھارویں ترمیم کو اس حدتک ٹوئٹ کیا جائے گا کہ اس ملک کے ’’حقیقی مسائل‘‘ حل ہو جائیں۔
صوبائی حکومتوں کے نقطہ نظر سے اٹھارویں ترمیم کا جائزہ لیا جائے تو یکسر مخلف صورتحال سامنے آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو غیر ضروری اخراجات کم کرنا چاہییں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی وفاقی وزارتوں اور اداروں کو ختم ہونا چاہیے تھا مگر ان کے نام بدل کر انہیں برقرار رکھا گیا ہے اور ان پر بھاری اخراجات کیے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بلا جواز ریکارڈ توڑ قرضے لیے جن کی وجہ سے سود کی ادائیگیوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ دفاعی اداروں کے اخراجات اور منصوبوں میں بھی حقیقت پسندی لائی جائے۔ مثلاً نیا جی ایچ کیو بنانے اور اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے ہمارے پاس پہلے ہی وسیع وعریض جی ایچ کیو ہے۔ جس طرح صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے درمیان کشمکش رہتی ہے بالکل اسی طرح بلدیاتی اور صوبائی حکو متیں بھی مستقل کشمکش کی حالت میں رہتی ہیں۔
وفاقی نظام یا کنفیڈریشن بنیادی طور پر مختلف اکائیوں کے درمیان ’اتحاد‘ اور ’ڈیل‘ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ریاست ایک ملک کے بجائے مختلف صوبوں کے اتحاد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ہر صوبہ لاک ڈاؤن سے لے کر مساجد کی تراویح تک اپنی مرضی کر سکتا ہے۔ اگر ایک صوبے کے ساتھ مسلسل ’زیادتی‘ کی جائے تو وہ اقوام متحدہ یا علاقائی یا عالمی طاقت کی مدد سے بنگلا دیش کی طرح الگ ہو سکتا ہے۔ وسائل کی کثرت کی صورت میں تو وفاقی نظام باسہولت چلتا رہتا ہے لیکن وسائل کی کمی کی صورت میں ریاست بچانے کے لیے فوج کشی تک کرنی پڑتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک کمزور نظام ہے جس میں ریاست کی طویل مدت بقا اکثریتی وسائل صوبوں کو دے کر وفاق کو کمزور کرنا سمجھا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ صوبوں کی خوشحالی کی ذمے داری وفاق کی نہیں؟ تمام صوبوں کے لوگ ایک ریاست کے شہری ہیں تو ان میں تفریق کیوں؟ ان کے لیے مختلف پالیسیاں کیوں؟ مختلف قوانین اور ٹیکس کیوں؟
اسلام میں ریاست مختلف اکائیوں کے معاہدے یا اتحاد سے وجود میں نہیں آتی، بلکہ تمام اکائیاں ایک ریاست اور ایک سرزمین ہوتی ہیں جس کے مسلمان شہری ووٹ کے ذریعے خلیفہ کو منتخب کر کے شریعت کے نفاذ کی شرط پر اسے بیعت دیتے ہیں۔ خلیفہ ریاست کو مختلف انتظامی یونٹس میں تقسیم کر کے اپنی صوابدید سے گورنر مقرر کرتا ہے۔ تمام وسائل ریاست کی مشترکہ ملکیت ہیں، کسی ایک صوبے کی نہیں۔ تمام صوبوں کے تمام امور کی ذمہ داری خلیفہ کے سر ہے، تمام ریاست میں ایک ہی شرعی قانون اور ایک جیسی پالیسیوں کا نفاذ ہوتا ہے، اٹھارویں ترمیم جیسے مسائل کا حل خلافت کی صورت اسلام کا واحدانی نظام ہے، نہ کہ نت نئے تجربے، جن کا نتیجہ بخوبی معلوم ہے۔