مغرب اور جمہوریت کا ’’مودی ماڈل‘‘

311

علامہ اقبال نے جس مغربی جمہوریت کو جمہوری تماشا کہا تھا لگتا ہے اب اپنے کرتب وکمالات سمیت طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ مغربی جمہوریت کا حسن اس کی حریت فکر اور عمل اس کا پلورل ازم اور احترام انسانیت تھا۔ ہر تہذیب کی کچھ بنیادیں ہوتی ہیں اور یہ عمارت ان بنیادوں کے کمزور ہونے پر لرزنے لگتی ہے۔ مغربی تہذیب اور جمہوریت کی عمارت اپنی بنیادوں پر جب تک کھڑی رہی اس کا ڈنکا بجتا رہا۔ سرد جنگ کے سخت دور کے باوجود یہ اپنا وجود منوانے میں کامیاب رہی۔ مغربی جمہوریت نائن الیون کا چرکہ بھی کامیابی سے سہہ گئی۔ نائن الیون نے مغرب کا ایک نقصان تو جڑواں میناروں کی تباہی اور چند ہزار افراد کی ہلاکت کی صورت میں کیا۔ یہ ایسا نقصان تھا جو دکھائی بھی دیا اور اسے محسوس بھی کیا گیا اس کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی مگر یہ واقعہ مغرب کے اعصاب پر کچھ اس انداز سے سوار ہوگیا کہ مغرب کی طاقت اور ثقافت کی علامت امریکا نے اپنی تمام پالیسیاں اس واقعے کے تناظر میں ترتیب دینا شروع کیں۔ امیگریشن کے قوانین بدل دیے گئے۔ سرحدوں پر کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔ خطرے کے پیشگی حملے کے نام پر مسلمان ملکوں کے سول اسٹرکچر ادھیڑ کر رکھ دیے گئے اور اس دوران ابوغرائب اور گونتا ناموبے جیسے شرمناک افسانے تحریر کیے گئے کہ مدتوں انسانیت شرمسار اور نادم رہے گی۔ میڈیا کو کنٹرول اور آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے۔ پہلے میڈیا کو اپنے ٹینکوں پر بٹھا کر عراق کے اقتدار اعلیٰ کو تاراج کرنے کی عکس بندی اور رپورٹنگ کی نئی طرح ڈالی گئی بعد میں اس میڈیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جیب میں ڈال دیا گیا۔ باہر سے آنے والوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی جو خوبی مغربی ملکوں اور جمہوریتوں کی پہچان تھی نائن الیون کے بعد ردعمل کی زد میں آتی چلی گئی اور یوں مغربی جمہوریتوں کے اس ردعمل نے باہر سے آنے والوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک سخت گیر سفید فام ذہنیت پیدا کر دی۔
ایک دور میں بھارت میں ہندوتوا محض معاشرے کے ایک طبقے کی سوچ تھی اور ساٹھ وستر کی دہائیوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ سوچ بھارتی ریاست کا اجتماعی نظریہ اور حکمت عملی کی کلید بن چکی ہو گی۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد سفید فام نسل پرستانہ سوچ کے اثرات مغربی جمہوریت اور پلورل ازم کو بہت آہستہ روی کے ساتھ متاثر کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مغربی ملکوں نے جو سخت گیر پالیسیاں اختیار کیں اس نے مغرب کو اپنی پرکشش بنیادوں سے محروم کرنا شروع کیا۔ نیوزی لینڈ کا واقعہ سفید فام ’’مودی ازم‘‘ کی راہ کا ایک اہم پڑائو تھا۔ نائن الیون کے بعد کورونا وائرس کا بحران اب اس سخت گیری کے سفر کو مزید تیز تر کردے گا۔ اس طرح حفاظت اور خطرات سے بچائو کے نام پر بننے والے سخت گیر قوانین، سماج میں اُبھرنے والی تقسیم اور تفریق کی نئی لکیر، آزادی اظہار اور اطلاع اور ابلاغ پر کنٹرول کی کوشش کے باعث مغربی ملکوں کی جمہوریت کچھ ایسی ہو کر رہ جائے گی کہ اس کی شناخت ہی ممکن نہیں رہے گی۔ گویا کہ فریم جمہوری ہوگا تصویر آمرانہ ہوگی، بوتل جمہوریت ہوگی تو اس میں موجود مشروب آمریت ہوگا۔ یہ جمہوریت زیادہ کھل کر سفید فام اکثریت کے مفادات کی اسیر ہو کر رہ جائے گی۔
مغرب کے سامنے اب جمہوریت کا ’’مودی ماڈل‘‘ آگیا ہے۔ شعوری طور پر مغرب اب اسی ماڈل کی طرف لڑھکتا جارہا ہے۔ اس ماڈل میں مسلمانوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے زیادہ محتاج وضاحت نہیں۔ اچھی بھلی پرسکون زندگی گزارنے والے بھارتی مسلمانوں کو جمہوریت کے اس انداز نے پریشاں حال کرکے سڑکوں پر لاکھڑا کیا۔ مسلمان پارلیمنٹ اور عدلیہ سے مایوس ہو کر اپنی گزری ہوئی نسلوں کی ازسر نو شناخت کرانے کی ناروا عمل پر سراپا احتجاج اور سراپا سوال ہیں کہ آخر صدیوں بعد اس تحقیق کی ضرورت کیا تھی۔ مغرب میں تو مسلمانوں کی دوسری اور تیسری نسل رہ رہی ہے مگر بھارت میں تو یہ صدیوں کے تاریخی عمل کا حصہ اور صدیوں کے عروج وزوال کے ہر سفر کے ہم راہی ہیں۔ جمہوریت کے مودی ماڈل نے مسلمان عورتوں کو کچن سے اُٹھا کر دہلی کے شاہین باغ دھرنے میں لا بٹھایا۔ جوں جوں مغربی جمہوریت اس راہ پر چلے پڑے گی مغربی ملکوں میں موجود مسلمان آبادیوں کی مشکلات بڑھتی جائیں گی۔
مغرب میں صفوں کی ترتیب اور تنظیم کا کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے نئے سربراہ کیئر اسٹارمر کا مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینا دنیا کی جمہوریتوں کی ماں برطانیہ کی صدیوں پرانی جماعت لیبر پارٹی کے موقف کی ترتیب نو کا اشارہ ہے برطانیہ کی جمہوریت دو جماعتوں کنزرویٹو اور لیبر پارٹی کے گرد گھومتی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی اپنے نام کی طرح پالیسیوں میں سخت گیر اور نسل پرستانہ چھاپ کی حامل اور اسرائیل اور بھارت کی روایتی دوست ہے۔ لیبر پارٹی کی پہچان لبرل ازم اور بائیں بازو کے رجحانات ہیں۔ اس جماعت سوشل ڈیموکریٹس، ڈیموکریٹک سوشلسٹ اور ٹریڈ یونینسٹ شامل ہیں اور اسے سینٹر لیفٹ کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے تارکین وطن کو لیبر پارٹی کے ساتھ وابستہ ہونے اور رہنے میں سہولت رہی ہے۔ مسلمان، پاکستانی اور کشمیری اور سیاست کے شوقین تارکین وطن لیبر پارٹی کے ساتھ وابستہ ہونے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیبر پارٹی نے مسلمانوں کے برطانیہ سے باہر سیاسی مسائل پر بھی ایک جاندار اپروچ اپنائے رکھی۔ لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیری کاربین نے فلسطین اور کشمیر کے معاملات پر دو ٹوک موقف اپنائے رکھا۔ پانچ اگست کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے بعد لاک ڈائون کا آغاز کیا تو جیری کاربین نے لیبر پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کئی ٹویٹ کیے جن میںکہا گیا تھا کہ کشمیر کے حالات پریشان کن ہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ناقابل قبول ہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حق خود ارادیت کے ذریعے کشمیریوں کے حقوق کا احترام ہونا چاہیے۔ جیری کاربین نے ایک اور ٹویٹ میں عالمی مبصرین کی ٹیم کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کہاں جیری کاربین کا یہ موقف اور کہاں ان کے جانشین کیئر اسٹارمر کا یہ کہنا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے ہم برصغیر کے مسائل کی بنیاد پر برطانوی کمیونٹی کو تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیئر اسٹارمر نے یہ بیان بھارتی لابی کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد دیا جو اس قدیم جماعت کے موقف میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ لیبر پارٹی نے اگر انتخابی، سیاسی اور تجارتی فائدے کے لیے دو ہاتھ آگے بڑھنے کی کوششِ پیہم کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہلانے والا برطانیہ بھی غیر سفید فاموں بالخصوص مسلمانوں کے لیے سوتیلی ماں ہو کر رہ جائے گی۔ اپنی اصل بنیاد سے ہٹنا مغربی جمہوریت کو آخر کار انجام تک پہنچا دے گا پھر اس نظام میں پارلیمنٹ بھی ہوگی الیکشن بھی ہوں گے جلسے جلوس بھی ہوں گے کابینہ اور جمہوریت کے دوسرے لوازم بھی بظاہر موجود ہوں گے مگر اس نظام میں جمہوریت نہیں ہوگی اور یہ منظر ہم آج بھارت میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں پارلیمانی اور مغربی جمہوریت کا ہر تقاضا پورا ہے مگر جمہوریت کی روح کہیں غائب ہے اور یہی جمہوریت اور فسطائیت کے درمیان باریک سا فرق ہوتا ہے۔