پھر کیا ہوا

488

وزیراعظم عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ وہ بڑے بڑے مسائل کا ایسا آسان حل ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ نریندر مودی نے کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیا تو انہوں نے اس کا حل یہ نکالاکہ جمعہ کے دن آدھ گھنٹہ پاکستان کی سڑکوں پر کھڑا رہا جائے۔ کھڑا رہنا چونکہ دو ٹانگوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے ہمیں امید تھی کورونا جیسی عالمی وبا کے لیے وہ آدھ گھنٹے ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے کے لیے کہیں گے۔ انہوں نے ایسا تو نہیں کیا البتہ کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک ٹائیگر فورس کا اعلان کردیا۔ ٹائیگر فورس کی افادیت کا احساس ہمیں تب ہوا جب خان صاحب نے اعلان کیا کہ ہم لاک ڈائون نہیں کریں گے۔ ٹائیگر فورس لاک ڈائون زدہ علاقوں میں راشن پہنچائے گی۔ ہمارا خیال تھا کہ اس فورس کی حقیقت بھی وہی ہوگی جو پچاس لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریوں، سو دن میں پاکستان کا قرضہ اتارنے اور پٹرول چالیس روپے فی لیٹر کرنے کی تھی لیکن کمال ہے عمران خان سیریس ہی ہوگئے۔ یہ وعدہ پورا کردکھایا ورنہ وعدوں کی تکمیل کے لحاظ سے ان کی رپورٹ کارڈ پر انڈے ہی انڈے تھے۔ خبریں آرہی ہیں کہ ٹائیگر ریلیف فورس میں 9لاکھ 20ہزار رضا کار شمو لیت اختیار کرچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ رضاکار قوم کا محض ستیاناس کریں گے۔ سوا ستیاس کرنے سے گریز فرمائیں گے۔ قوم بھی اس میراثی کی طرح عزت بچ جانے پر شکر ادا کرے گی جس کی ایک بیٹی پٹواری کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ بھاگنے کو باقی دو بھی بھاگ سکتی تھیں۔ اسی طرح ایک میراثی کے اکلوتے بیٹے کو دشمنوں نے آنکھوں کے بیچ گولی مار کر قتل کردیا۔ اس نے لاش دیکھی تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ دونوں آنکھیں بچ گئیں۔ ایک گھر میں ڈاکو آئے سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔ لوگوں نے پوچھا ’’تم نے کچھ دن پہلے ایک بہت مہنگی بندوق لی تھی‘‘۔ جواب آیا ’’شکر ہے وہ بچ گئی۔ گودام میں چھپا کر رکھی تھی‘‘۔
وطن عزیز کے ایک وزیراعظم نے پاگل خانے کا دورہ کیا۔ کسی پاگل نے پوچھا ’’تم کون ہو‘‘۔ وزیراعظم نے بتایا ’’میں ملک کا وزیراعظم ہوں‘‘۔ پاگل کے ہنستے ہنستے پیٹ میں درد ہوگیا۔ بولا ’’جب میں پاگل خانے میں نیا نیا آیا تھا تب میں بھی خود کو وزیراعظم سمجھتا تھا‘‘۔ ہمارے وزرائے اعظم جب خود کو خودمختار سمجھتے ہوئے ٹائیگر فورس جیسے اعلان کرتے ہیں تو جی ایچ کیو والے بھی خوب ہنستے ہوں گے کہ یہ وزیراعظم بھی خود کو فورس یعنی طاقت سمجھنے لگا ہے۔ حیرت ہے ابھی تک مقتدر اداروں کی طرف سے لفظ فورس پر اعتراض نہیں کیا گیا کیونکہ فورسز صرف مسلح افواج ہیں یا ان کے علاوہ رینجرز اور پولیس۔ کسی حکومت یا سیاسی جماعت کو قوم کی خدمت کا درد زیادہ ہی اذیت دے رہا ہو اور وہ کچھ ڈلیور کرنا چاہتی ہو تو نوجوانوں کی تنظیم سازی کرکے اپنی جماعت کے ذیلی ونگ بنا سکتی ہے۔ یہ بات مان بھی لی جائے کہ ٹائیگر فورس مسلح تنظیم نہیں ہوگی لیکن مسلح تنظیموں جیسی اس کی باقاعدہ وردی تو ہوگی۔ جس کی چھپائی اور تقسیم بھی شروع ہوگئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 45 سے 100کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ اس فورس میں جس عجلت سے دس لاکھ رضاکار بھرتی کرلیے گئے ہیں وہ ظاہرکرتا ہے کہ رضا کاروں کے ماضی اور حال کی چھان بین اور کسی قسم کی تحقیقات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ کوئی بتائے گا ہر محلے کے لچے لفنگے کیوں اس فورس میں شامل نہیں ہوگئے ہوں گے؟۔ کیوں وہ سرکاری سرپرستی اور سرکاری جماعت کے نام پر بدمعاشیاں کرتے نہیں پھریں گے؟۔ کیا پاکستان میں متعدد مواقع پر جرائم پیشہ افراد گرفتاریوں اور سزائوں سے بچنے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فلاحی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر لوٹ مار اور قتل وغارت گری نہیں کرتے رہے ہیں؟۔ اگر تحریک انصاف ایسی فورس بنا سکتی ہے تو دیگر جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ نتیجہ کیا نکلے گا پورا پاکستان بھائی کا کراچی بن جائے گا۔
ٹائیگر فورس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ یہ فورس راشن تقسیم کرے گی، قرنطینہ مراکز کی مینجمنٹ میں حصہ لے گی، ٹرانسپورٹ کا انتظام بہتر بنائے گی، ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کرے گی۔ فورس ڈپٹی کمشنروں کے ماتحت کام کرے گی اور اسے انتظامیہ کی مکمل سرپرستی اور تعاون حاصل ہوگا۔ کہنے سننے میں یہ باتیں بڑی بے ضرر اور مناسب لگتی ہیں لیکن دراصل یہ عمران خان کی سیاسی فورس ہوگی۔ جس کے سیاسی مقاصد ہوں گے۔ یہ فورس بھی خود کو عمران خان کی سیاسی فورس ہی سمجھے گی۔ اس فورس کا پہلا ٹکرائو ایڈ منسٹریشن کے ساتھ ہوگا۔ سب کو پتا ہے سندھ میں ٹائیگر فورس اور انتظامیہ کے درمیان جھگڑا لازمی ہے جو اس فورس کو قبول ہی نہیں کرے گی۔ پنجاب میں ہر چند کہ تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن وہاں کی ایڈمنسٹریشن بھی اس فورس کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گی۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر تو چھوڑیے تحریک انصاف کے اپنے اراکین اسمبلی اور کونسلرز اس فورس کو اپنے اختیارات میں مداخلت تصور کریں گے۔ دیگر صوبوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہو گی۔ انتظامی سطح پر لڑائی جھگڑے ہوں گے اور طرح طرح کی کہانیاں سامنے آئیں گی۔
گلی محلے کی سطح پر بھی ٹائیگر فورس سے نئے محاذ کھلیں گے۔ ناممکن ہے یہ فورس اپنے مخالفین کو دبانے کی کوشش نہ کرے، ان کے لیے مسائل پیدا نہ کرے، ان کے خلاف مقدمات نہ بنوائے اور انہیں تنگ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمارے ملک میں جب کوئی بااختیار بنتا ہے تو ایسا کرنا روایت ہے ورنہ اختیارات کا فائدہ؟۔ اس فورس کی پوری کوشش ہوگی کہ ہر گلی اور محلے میں اس کی حکمرانی ہو اور وہ دوسروں کے لیے نو گو ایریا بن جائیں۔ آج جو گرہیں عمران خان انگلیوں سے لگا رہے ہیں کل انہیں دانتوں سے کھولنا پڑیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایف ایس ایف بنائی تھی۔ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ان پر پہلا مقدمہ قصوری صاحب کے قتل کا نہیں بلکہ ایف ایس ایف کے ذریعے مخالفین پر زیادتی کرنے کا بنا تھا۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے جب مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تھا تب سیکورٹی نظم وضبط کے لیے بنائی گئی باوردی فورس کو دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ اسے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جارہا تھا۔ وہی لوگ آج ٹائیگر فورس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ وکیلوں نے جسٹس افتخار چودھری کے دور میں طاقت کا استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ آج تک ان سے یہ طاقت واپس نہیں لی جاسکی۔ پرویز مشرف کے آخری دنوں میں کراچی میں ایک فورس بنائی گئی تھی جسے کمیونٹی پولیس کا نام دیا گیا تھا۔ مقصد شہری حکومت کے اثاثوں کی حفاظت اور زمینوں پر قبضے روکنا بتایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ کراچی میں خونریزی انتہا کو پہنچی تو ایم کیو ایم کے دیگر ونگز کے ساتھ ساتھ یہ کمیونٹی پولیس مشکوک سرگرمیوں، اہم شخصیات کی ریکی، سرکاری عمارتوں کی نگرانی اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے اور نہ جانے کن کن جرائم میں ملوث پائی گئی۔
پاکستان میں اس قسم کی فورسز کی ماضی میں وہ کون سی اعلیٰ مثال ہے جس سے متاثر ہوکر ٹائیگر فورس کا نادر خیال عمران خان کے ذہن میں آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں بے حد پھیلی ہوئی سرکاری مشینری کی موجودگی میں ایک ایسی ایکسٹرا فورس کی ضرورت کیا ہے۔ ملک میں پولیو کی ٹیم موجود ہے جو ملک میں ایک ایک گھر اور اس گھر میں موجود ایک ایک بچے سے واقف ہے۔ اگر آپ کی نیت نیک ہے، آپ کوئی خیر کا کام کرنا چاہتے ہیں تو اس ٹیم سے کام لے سکتے ہیں۔ نہ جانے جو شخص بھی برسر اقتدار آتا ہے وہ کیوں خدا کے لہجے میں بولنے لگتا ہے؟ وہ کیوں سمجھنے لگتا ہے کہ میں ہمیشہ حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں؟۔ پھر وہ ایسے الٹے سیدھے کام کرنا شروع کردیتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے ایک لطیفہ سن لیجیے۔ ایک صاحب اپنے دوست سے باتیں کررہے تھے۔ ’’میں نے گھونسا مار کر شیر کا منہ توڑ دیا۔ گینڈے کو لات مار کر دور پھینک دیا۔ ہاتھی کو دونوں ہاتھوں پر اٹھا، گھما کر پھینکا تو دور جاگرا‘‘۔ دوست نے حیران ہوکر پوچھا ’’پھر کیا ہوا۔ خیریت تو رہی‘‘۔ جواب ملا ’’خیریت کیا رہی اتنے میں کھلونوں کی دکان کا مالک آگیا اور اس نے مجھے نوکروں کی مدد سے اٹھا کر دکان سے باہر پھینک دیا‘‘۔