لاک ڈائون نرم یا سخت!!

264

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے مشاورت کے بعد ہفتے سے لاک ڈائون نرم کرنے کا اعلان کیا لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اب ساری ذمے داری عوام پر تھی کہ احتیاط کریں لیکن صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے اعلانات کرنا شروع کردیے۔ پنجاب میں 31 مئی تک لاک ڈائون کی تاریخ بڑھا دی گئی۔ سندھ حکومت کا سخت رویہ برقرار ہے۔ کراچی ہفتے کے روز بھی بند رہا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں صورتحال بدتر ہو رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ لاک ڈائون فیز ٹو شروع ہو گیا ہے۔ جو نرمی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہفتے میں 4 دن نرمی اور 3 دن سختی ہوگی۔ ایس او پی پر سختی سے عمل کی ہدایت اور خلاف ورزی پر کاروبار بند کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ مجموعی طور پر لاک ڈائون میں نرمی کا تاثر سامنے آیا ہے اور اتوار کے روز بھی لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر تھی۔ بڑے شاپنگ مالز کے بارے میں بھی صوبائی حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ حکومت خود کیا چاہتی ہے۔ اگر وہ لاک ڈائون رفتہ رفتہ نرم کرنا چاہتی ہے تو اسے یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ تقریباً دو ماہ کے بعد نرمی کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں بے تحاشا رش ہوگا اسے کنٹرول کرنے اور لوگوں کو ایس او پیز کا پابند بنانے کا کام بھی بڑا کٹھن ہوگا۔ حکومت سندھ کی جانب سے خوفزدہ کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کے بجائے لاک ڈائون میں نرمی کو کوسا جا رہا ہے۔ اس بات کا خدشہ ضرور ہے کہ لوگوں نے ایس او پیز پر عمل نہیں کیا تو کورونا کے پھیلائو کے امکانات بڑھ جائیں گے لیکن اخبار جنگ نے اتوار کی اشاعت ہی میں سرخی جما دی کہ لاک ڈائون نرم کورونا میں اضافہ۔ اس سرخی سے وہی تاثر ملا جو حکومت سندھ اور مختلف حلقے دے رہے ہیں کہ لاک ڈائون میں نرمی سے کورونا میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہوا ہے۔ ہفتے سے لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان ہوا ہے اور اعلان ہوتے ہی اتنے ٹیسٹ ہوگئے کہ لوگوں کی مثبت ہونے کی رفتار بڑھ گئی۔ ظاہری بات ہے ایسا نہیں ہے۔ اگر ہفتے کو لاک ڈائون میں نرمی ہوئی ہے تو اس کے اثرات سامنے آنے میں وقت لگے گا جبکہ سندھ کا ذکر کیا جارہا ہے جہاں اتوار تک لاک ڈائون کی صورتحال پہلے جیسی ہے۔ البتہ پیر سے کچھ نرمی کا اعلان کیا گیا۔ لاک ڈائون میں نرمی کے حوالے سے حکومتیں شدید ابہام کا شکار ہیں۔ کوئی مشورہ دے رہا ہے کہ لاک ڈائون مزید سخت کردیا جائے لیکن یہ ماہرین بتائیں کہ لاک ڈائون کتنا ہونا چاہیے۔ دُنیا کے کسی ملک کی مثال، کوئی طبی تحقیق یا کسی ملک کا تجربہ سامنے ہونا چاہیے۔ اسی ماڈل پر لاک ڈائون سخت یا نرم کیا جانا چاہیے۔ اگر مختلف ملکوں کے تجربات دیکھتے ہیں تو تائیوان کو دیکھیں جہاں ایک دن بھی لاک ڈائون نہیں ہوا۔ اسکول بھی بند نہیں ہوئے لیکن ان کی حکومت نے نہایت سمجھداری سے لوگوں میں آگہی پیدا کی اور اب اس ملک کی جانب سے دُنیا کے کئی ممالک کو امدادی سامان بھیجا جا رہا ہے۔ وہاں کی صنعتیں بھی ایک دن کے لیے بند نہیں ہوئیں۔ یہ ملک کورونا پر قابو پا چکا ہے۔ سویڈن میں مکمل لاک ڈائون نہیں کیا گیا تاہم اس پر سوالات اٹھے ہیں اسی طرح امریکا، کینیڈا، جرمنی اورچین کے تجربات سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جس کا جہاں اختیار ہے وہ اپنے مطابق فیصلے کر رہا ہے۔ حکومت سندھ نے بھی 31 مئی تک لاک ڈائون میں توسیع کی ہے۔ گویا وفاق کا اعلان اپنی جگہ صوبوں کا اپنی جگہ۔ عوام لاک ڈائون ختم یا نرم ہونے کے وفاق کے اعلان سے کچھ سکون میں آئے تھے لیکن صوبائی حکومتوں کے سخت بیانات سے پریشان ہیں کہ یہ لاک ڈائون نرم ہوا ہے یا سخت۔ حکومتیں اب بھی ایک دوسرے سے اس معاملے میں سیاست کر رہی ہیں جس کا نقصان بہرحال عوام اور ملک کو بھگتنا ہے۔ اس خبر اور یہ تاثر دینے کا بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی کے پہلے ہی دن سندھ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سندھ میں سخت لاک ڈائون کے باوجود کورونا بڑھ رہا ہے تو وزیراعلیٰ سوچیں کہ اس ناکامی کا سبب کیا ہے۔ عوام کو ڈرانے اور غیر سنجیدہ تجزیے کروا کر لوگوں کو خوفزدہ کیوں کر رہے ہیں۔ تاجروں سے الگ لڑائی ہے۔ موٹر سائیکل سوار خصوصی نشانہ ہیں۔ اگر کاروبار کھولنے سے کورونا پھیلتا ہے تو لاکھوں روپے رشوت لے کر فیکٹریاں کھولنے اور ہزاروں روپے ٹھیلے والوں سے رشوت لینے کی بھی تحقیقات کرائی جائے۔ چار پانچ لاکھ روپے سرکاری محافظوں کی جیبوں میں آجائیں تو کورونا نہیں پھیلتا؟۔