ظفر عالم طلعت
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ نماز کے بعد رونے لگیں۔۔ حسب معمول ہم سے ان کی حالت دیکھی نہ گئی۔ ہم نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں آپ کو یاد ہے گزشتہ سال ہم لوگ حرم شریف میں تھے۔ ہم نے تقریباً پورا رمضان اور بالخصوص آخری عشرہ وہیں گزارا تھا۔ اور عید بھی مکہ مکرمہ میں کی تھی۔ بعد ازاں مدینہ شریف بھی گئے تھے۔ ہمارا بیٹا خالد بھی اپنی فیملی کے ساتھ ریاض سے آگیا تھا ہم سب نے مل کر کیسے کیسے انوار و برکات سمیٹے تھے۔ ہم نے تصدیق کی تو بولیں۔ اس وقت کیسی رونقیں تھیں۔ مگر اب TV پر مکہ مدینہ کے چینل مباشر دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیسی خاموشی۔۔ سناٹا۔۔ اور ویرانی سی محسوس ہوتی ہے۔ پتا نہیں ہم گناہگاروں سے کیا بھول ہوئی کہ ہمارا ربّ ہم سے روٹھ گیا۔ اس نے ہم پر اپنی مسجدوں اور حرمین شریفین کے دروازے بند کردیے ہیں۔ نمازیں، تراویح اور زیارتیں سب کچھ بند ہے۔ عمرہ اور طواف بھی بند ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ گردش ایام ٹھیر گئی ہے۔ ہر چیز ساکن ہے۔ ہم سب اس روحانی لذت سے محروم کردیے گئے ہیں۔ جو ان مقامات مقدسہ کا حاصل تھی۔ مسجدوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ قرآت قرآن کی مدھر آوازیں کہیں کھو سی گئی ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ پوری امت مسلمہ دیگر اقوام عالم کے ساتھ گھروں میں بند کردی گئی ہے دیگر اقوام کا معاملہ تو اور ہے لیکن ہم مسلمان تو رمضان سے پہلے ہی اعتکاف میں بٹھا دیے گئے ہیں کہ پہلے اپنے نفس کا جائزہ لو۔ اپنے اعمال درست کرو۔ اپنے دلوں کو تمام باطل خداوں سے پاک کرو۔ خلق خدا کا خیال کرو۔
ظلم اور ناانصافی کے فرسودہ نظام سے دنیا جہنم بن چکی ہے۔ اب معافی تب ہی ملے گی جب ہر شخص انفرادی اور ہر قوم اجتماعی طور پر۔ قوم یونسؑ کی طرح توبہ و استغفار نہیں کرتی۔ ابھی بھی وقت اور مہلت عمل ہے کہ روٹھے ربّ کو منالیں۔۔۔ تاکہ یہ عذاب خداوندی جو انتہائی حقیر سی شے کورونا کی شکل میں ہم پر مسلط ہے۔ اس سے نجات مل سکے۔ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ ان اللہ علیٰ کل شی ء قدیر۔ کن فیکون ہے۔ اس نے نمرود کو ایک مچھر سے مروا دیا۔ابرھا کے ہاتھیوں کے لشکر کو ابابیلوں اور کنکریوں سے ہلاک کردیا۔ اور اب یہ کورونا وائرس ہم پر مسلط ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ جن ممالک نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔ خصوصاً مسلمانوں کی زندگیاں عذاب بنادی تھیں۔ ان سب کو اللہ کی پکڑ نے آگھیرا۔ برما کے دربدر مسلمان ہوں۔ یا چین کے مظلوم ایغور ہوں۔ شام میں نبیوں کی اولادیں ہوں یا فلسطین کے محصور اور مجبور مسلمان۔ یا یمن کے بے کس و بے امان مسلمان ہوں۔ افغانستان کے شہیدوں اور کشمیر کی مائوں بہنوں کی آہوں نے اللہ ربّ العزت کے عرش کو ہلادیا۔ یہاں تک کہ اٹلی کے وزیر اعظم نے روتے ہوئے کہا کہ انسان کے بس میں جو کچھ تھا ہم نے کرلیا اب معاملہ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ ہم پر رحم کردے۔
مجبوراً جن ملکوں نے قرآن جلائے تھے وہ خود مسلمانوں کو قرآن بانٹتے نظر آئے۔ جنہوں نے مسجدوں پر اور نمازوں پر پابندی لگائی تھی وہ خود مسلمانوں سے کندھے سے کندھے ملائے نماز میں کھڑے نظر آئے۔ جہاں اذانیں بند کی گئی تھیں وہ شہر اور سڑکیں اذانوں سے گونجتی سنائی دیں۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ برطانیہ میں پہلی مرتبہ لاوڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دی گئی اور ہزاروں لوگوں نے حیرت اور خوشی سے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ اور جو پردے اور اسکارف پر جرمانے لگارہے تھے وہ اب ماسک اور گائون نہ پہننے پر جرمانے لگارہے ہیں۔
واہ میرے ربّ۔۔ تیری کیا شان ہے۔۔ اور تیری ہی چال سب پر غالب ہے۔۔ اب کفار کا یہ حال ہے کہ ہزاروں بے گور وکفن لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کرنے پر مجبور ہیں۔۔ لوگ سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔ اسپتال اور میت خانے بھر چکے ہیں۔۔ ڈھائی لاکھ مرچکے ہیں اور 35 لاکھ سے زائد بیمار ہیں۔ اور اربوں گھروں میں قید۔ نفسانفسی کا عالم ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا چھوٹ چکا ہے۔ کاروبار زندگی ٹھپ ہے۔ عالمی کساد بازاری اور معیشت کی تباہی جاری ہے۔ کروڑوں بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اور پوری دنیا پر ایک خوفناک جمود طاری ہے۔۔۔ یہ تو تھا حال کفار اور باقی دنیا کا۔۔ لیکن ہم مسلمانوں کی پکڑ بھی کچھ کم نہیں ہے۔۔ کیونکہ ہم بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ ان سارے مظالم میں شریک رہے ہیں۔ ہم نے بھی مظلوموں کے بجائے اس ظالم سماج اور زمینی خداوں ہی کا ساتھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھی گھروں میں قید ہیں۔ معاشی تباہی۔ بھوک افلاس اور بے روزگاری کا مہیب عفریت منہ کھولے چلا آرہا ہے۔ ہماری مسجدیں۔ حرمین شریفین بھی ویران ہیں ایک ہو حق کا عالم ہے۔ بس رہے نام اللہ کا۔
بے شک آقا… ہم سے بھول ہوئی
چھوڑ کے تیرا دامن رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
کھو گئی اپنی قدر وقیمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
کھول دو اپنا باب رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی