سونے کا انڈا دینے والی مرغی

537

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں روزانہ طبعی موت یا مختلف عام بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد پندرہ بیس سے کیا کم ہوتی ہوگی۔ محلوں کی مساجد سے نماز جنازہ کا باقاعدہ اعلان ہوتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات ایک ہی محلے سے کئی کئی جنازے اُٹھتے تھے، البتہ میڈیا پر اِن اموات کی تشہیر نہیں ہوتی تھی۔ جب سے کورونا آیا ہے یہ اموات تو پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ اب جو مر رہا ہے کورونا سے مر رہا ہے اور اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں اِن ہلاکتوں کی یومیہ تعداد شائع اور نشر ہورہی ہے۔ ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ اب مساجد سے نماز جنازہ کے اعلانات بھی بند ہوگئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ازخود مساجد میں اعلان کرانے سے گریز کرنے لگے ہیں، انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں اعلان ہوتے ہی کورونا والے نہ آدھمکیں اور میت اُٹھا کر لے جائیں اور وہ اپنے پیارے کی تکفین و تدفین سے بھی محروم رہ جائیں۔ لوگوں کا یہ خوف بیجا نہیں ہے۔ اس قسم کے واقعات میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر رپورٹ ہوئے ہیں جن میں متاثرین فریاد کررہے ہیں کہ سرکاری اہلکار مرنے والے کو کورونا کا مریض قرار دے کر میت لے گئے ہیں اور اسے واپس کرنے کے لیے نذرانہ طلب کررہے ہیں۔ سندھ میں تو بتایا جاتا ہے کہ کورونا سرکاری اہلکاروں کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن گیا ہے۔ کورونا کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ جس کی جہاں تک پہنچ ہے وہ اتنا ہی بڑا ہاتھ مار رہا ہے۔ کارخانوں، فیکٹریوں، کاروباری اداراوں اور بازاروں کو کھولنے کے لیے باقاعدہ بھتا طلب کیا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں ادویہ ساز فیکٹریوں پر چھاپا بھی اسی مقصد کے لیے تھا لیکن آڑ کورونا کی لی گئی۔ سڑک پر کھڑے ہوئے پولیس کانسٹیبل کا بس ٹھیلے والے پر چلتا ہے، وہ اسے کورونا سے ڈرا کر اپنی جیب گرم کررہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بڑی کامیابی کے ساتھ عوام پر کورونا کا خوف مسلط کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری ان کی تحسین کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سید مراد علی شاہ کا مقابلہ وفاق سے ہے اور وہ وفاقی حکومت سے بازی لے گئے ہیں۔
پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی یہی کچھ ذرا مختلف انداز میں اور لو پروفائل میں ہورہا ہے۔ پنجاب نے سندھ کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹائیگر فورس کو میدان میں اُتار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان چوں کہ خود پنجاب کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں اس لیے انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ٹائیگر فورس کو ایک پیسہ نہیں ملے گا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں انہوں نے ٹائیگر فورس کے خدائی خدمت گاروں کو لگی لپٹی رکھے بغیر بتادیا ہے کہ انہیں خود کمانا اور کھانا ہوگا حکومت انہیں گزارہ الائونس بھی نہیں دے گی۔ ظاہر ہے کہ جو بیروزگار نوجوان روزگار کی تلاش میں ٹائیگر فورس میں شامل ہوئے ہیں وہ اس کی چھتری تلے کوئی نہ کوئی دھندا تلاش ہی کرلیں گے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ موجودہ دور کے نوجوانوں میں ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ انہیں اگر سمندر کی لہریں گننے پر لگادیا جائے تو وہ وہاں بھی اپنے لیے آمدنی کے ذرائع پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ تو پنجاب ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں ہے اور ٹائیگر فورس کے نوجوان ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ فی الحال انہیں احساس پروگرام میں غریبوں کی رجسٹریشن اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی مہم پر لگایا گیا ہے اور اس مہم میں ان کے لیے آمدنی کے بے شمار مواقعے موجود ہیں۔ اقبالؔ ایسے ہی نوجوانوں کے لیے کہہ گئے ہیں۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
عمران خان نے ٹائیگر فورس بنا کر اور پنجاب حکومت نے اسے کام سونپ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نوجوان اس موقعے سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کورونا سندھ سرکار کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ثابت ہوا ہے لیکن اس نے وفاق کی سرکار کو بھی نہال کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت بیرونی قرضوں اور سابق حکمرانوں کی کرپشن کا رونا رویا کرتے تھے ان دنوں بہت سکون سے ہیں۔ کورونا انہیں بھی سونے کے انڈے دے رہا ہے۔ انہوں نے کورونا کے پاکستان میں داخل ہوتے ہی عالمی برادری کے آگے ہاتھ پھیلا دیا تھا (یہ ان کی پرانی عادت ہے) عالمی برادری نے اس میں خیرات یعنی امداد ڈالنی شروع کردی۔ ان ملکوں نے بھی امداد دی جو خود کورونا کی زد میں آئے ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف نے قرضہ ری شیڈول کردیا۔ عالمی بینک نے مزید قرضہ دے دیا۔ پھر کورونا ریلیف فنڈ کے نام پر بھی اندرون و بیرون ملک سے عطیات کے ڈھیر لگ گئے۔ عمران خان کو اور کیا چاہیے تھا۔ ان کے دل میں غریبوں کا بڑا درد ہے، انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ کورونا کے سبب ملک میں لاک ڈائون ہوگیا تو غریب اور دہاڑی دار مزدور کہاں سے کھائیں گے۔ قدرت نے ان کی مدد کی، ان پر ہُن برسنے لگا اور اب وہ دو سو ارب روپے غریبوں میں بڑی فراخ دلی سے تقسیم کررہے ہیں۔ شفافیت کا یہ عالم ہے کہ کسی کو کانوں کان اور ہاتھوں ہاتھ خبر نہیں ہورہی ہے۔ خیرات کا اصول بھی یہی ہے کہ ایک ہاتھ سے دی جائے تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔ حکومتی ڈھنڈورچیوں کے مطابق غریب دہاڑی دار بہت خوش ہیں کہ ان کی سنی گئی ہے لیکن کچھ بدخواہ افواہیں بھی پھیلا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ بھی اس کی شفافیت پر اُنگلی اُٹھا رہی ہے۔ خیر ہم اس بحث میں نہیں پڑتے۔ ہم تو اس بات سے خوش ہیں کہ کورونا نے عمران خان کی بہت سے مشکلیں حل کردی ہیں۔ خان صاحب کی حریف تمام سیاسی جماعتوں کو لاک ڈائون کردیا ہے۔ اب نہ کوئی جلسہ ہے، نہ جلوس، نہ احتجاج، نہ مظاہرہ، نہ دھرنا ورنہ ہمیں یاد ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کے ساتھ اکیلے دھرنا دے کر خان صاحب کے اوسان خطا کردیے تھے، اگر سب جماعتیں مل جائیں تو ان کی رخصتی یقینی تھی۔ اب کورونا نے سب جماعتوں کو دست بستہ خان صاحب کے آگے کھڑا کردیا ہے اور وہ انہیں ان مہنگائی حالات میں اپنی وفاداری کا یقین دلارہی ہیں اور تو اور خان صاحب کے کٹر مخالف مولانا فضل الرحمن بھی سرکاری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے گھر میں نماز و تراویح ادا کررہے ہیں۔ ایسے میں خان صاحب پر لازم تھا کہ وہ سیاست سے پرہیز کرتے لیکن انہوں نے میدان خالی دیکھ کر سیاست سیاست کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس کا آغاز اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خاتمے کی کوششوں سے کیا ہے۔ بظاہر سطح آب پر سکون ہے لیکن زیر آب ہلچل برپا ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات جاری ہیں اور ان کے قائدین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف میگا کرپشن کے تمام مقدمات ختم کیے جائیں پھر وہ اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے پر راضی ہوسکتے ہیں۔ اٹھاریوں ترمیم صوبائی خود مختار سے متعلق ہے جس نے صوبوں کو مالی امور سمیت بہت سے معاملات میں خود مختار بنادیا ہے اور یہ خود مختاری خان صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھارہی۔ اگر وہ کرپشن کے مقدمات ختم کرکے اٹھارہویں ترمیم کا گھونٹ بھرنے میں کامیاب رہے تو یہ سونے کا ایک اور انڈیا ہوگا جو کورونا کی مرغی ان کے لیے دے گی۔