حشمت اللہ صدیقی
کورونا وائرس کی وبا ایک عالمی وبا کی شکل میں تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے مسلم و غیر مسلم، امیر و غریب، ترقی یافتہ و پسماندہ کوئی ملک اس وبا سے محفوظ نہیں۔ پاکستان بھی اسی صفت میں شامل ہے، تمام ممالک میں سماجی فاصلے یعنی لاک ڈائون کے دیگر حفاظتی احتیاط کے ذریعے اس وبا کا مقابلہ کررہے ہیں، یہ تمام حفاظتی تدابیر عالمی سطح پر اختیار کی جارہی ہیں جن پر ہماری حکومت بھی عمل کررہی ہے لیکن ہمارے یہاں ایسے موقع پر بھی سیاست و باہمی اختلافات، نمایاں ہورہے ہیں۔ جبکہ آزمائش کے اس موقع پر مکمل قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، بے حِس سیاستدان، بیوروکریٹ، حکمران طبقہ اپنے مفادات کا شکار نظر آرہا ہے جب کہ عوام شدید اذیت میں ہیں۔ لاک ڈائون کے باعث بھوک و فاقہ زدگی کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں، غریب و متوسط طبقہ شدید معاشی بحران و مشکلات کا شکار ہے جب کہ وفاقی و صوبائی وزرا باہمی بیان بازی کررہے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں میں لاک ڈائون کرنے نہ کرنے پر اتفاق رائے نہیں یہ اختلاف بڑھنے سے ملک کی سیاسی سطح مزید آلودہ ہوگی جس کا نقصان ملک کے استحکام کو ہوگا۔ حالاں کہ وقت کا تقاضا ہے کہ باہمی تعاون و مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس وبا کا اسلام کے اصولوں و احکامات کی روشنی میں سامنا کیا جائے جس کا بنیادی نکتہ رجوع الی اللہ ہونا چاہیے، کیوں کہ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس قسم کی وبا و مشکلات عذاب الٰہی و انتباہ کی مختلف شکلیں ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے کردار کا جائزہ لیں کہ فی الواقعی ہمارا معاشرہ اسلامی احکامات کے مطابق عدل اجتماعی، سماجی انصاف و مساوات، باہمی ایثار و رواداری پراستوار ہے؟ اس کا جواب یقینا نہیں میں ہے ہمارے معاشرے میں لاقانونیت، ناانصافی، اقربا پروری، بددیانتی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی مہنگائی جیسی معاشرتی و سماجی برائیوں کی کثرت ہے، کرپشن و رشوت کی غلیظ دلدل میں پورا معاشرہ تباہ ہورہا ہے ہر سطح پر لالچ، جھوٹ، منافقت، ایک دوسرے کا استیصال ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی نشانی بن چکی ہے۔ یہ منظرنامہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا باعث ہے۔ چناں چہ اس منظرنامے کی روشنی میں ضرورت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور گناہوں سے توبہ کریں۔ چناں چہ ہر مکتب فکر کے علما متفق ہیں اور نصیحت کررہے ہیں کہ اس وبا سے نجات کے لیے پہلی فرصت میں کثرت سے استغفار و توبہ کریں لیکن ساتھ ہی استغفار و توبہ کے حقیقی مقاصد و روح کو بھی مدنظر رکھیں کیوں کہ توبہ و استغفار کے ساتھ ہمیں اوپر بیان کردہ معاشرتی برائیوں کو بھی چھوڑنے کا قصد کرنا ہوگا۔ کیوں کہ توبہ و استغفار گناہوں سے چھٹکارے کی شرط کے ساتھ ہے ورنہ معاشرتی ناانصافی و برائیوں کے ساتھ توبہ و استغفار کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا علما کو بھی چاہیے کہ وہ حکمرانوں کے لیے دعا کرانے کے ساتھ انہیں اسلامی قوانین کے نفاذ، سماجی انصاف، استیصالی و ظالمانہ نظام سے نجات پر بھی دعوت دیں۔ علما کو بتانا چاہیے کہ عاجزی و رقت آمیز دعائوں کے باوجود معاشرہ زوال و پستی میں کیوں گرا جارہا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں آج اسلامی فلاحی نظام کے بجائے ظالمانہ و استیصالی نظام کیوں مضبوط ہوتا جارہا ہے اور ہماری دعائیں رنگ نہیں لارہی ہیں اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت ضروری ہے کہ احکام خداوندی و سنت نبویؐ ہمیں دعا کے ساتھ دوا کی اہمیت سے کبھی انکاری نہیں کوئی مرض ایسا نہیں جس کی اللہ نے دوا نہ رکھی ہو، تلاش انسانوں کی ضرورت ہے، اسلام مادی اسباب کا انکاری نہیں ہے بلکہ طب نبویؐ میں کئی اہم امراض کی دوا خود نبی کریمؐ نے امت کو بتائی ہیں۔ مادی و ظاہری اسباب بھی اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہیں اور انسان (خواہ کافر ہو یا مسلم) جو سعی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے نتائج ضرور دیتا ہے کسی وبا کی ویکسین کی ایجاد بھی انسانی محنت و تلاش، تجربہ و سائنسی مشاہدات کا نتیجہ ہوتی ہے ہمیں اس کا انکار نہیں کہ یہ مغرب یا یورپی ممالک کے کسی سائنسدان کی ایجاد ہو یا کافروں کی۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں (مسلم و کافر) کا مالک، خالق، و مختارکل ہے وہ ہر فکر و جدوجہد کا نتیجہ ضرور دیتا ہے۔ لہٰذا اس وبا کے حوالے سے بعض عناصر غیر ضروری طور پر مسلم و غیر مسلم، سیکولر و دینی تنازع کو چھیڑ کر استغفار و توبہ کے عمل کی فضیلت و اہمیت سے ذہنوں کو پرگندہ کررہے ہیں اور تاثر دے رہے ہیں کہ وبا کے حوالے سے استغفار توبہ بے مقصد ہے۔ چناں چہ اس نو کا اظہار (روزنامہ جنگ کراچی 6مئی 2020ء کے ایک کالم بعنوان ’’معجزوں کا انتظار کرنے والی قوم‘‘ از یاسر پیرزادہ) سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کووڈ19 بیماری کا علاج ویکسین میں ہے اور یہ ویکسین کہیں ایجاد ہوئی تو وہ کافروں کے ملک کی کسی لیبارٹری میں ہوگی‘‘۔ نیز ’’ہماری خوش فہمی ہے کہ ہم نے یہ راز پالیا ہے کہ یہ وبا ہمارے گناہوں کے پاداش میں عذاب/ سرزنش کے طور پر آئی ہے۔
اس لیے اجتماعی اور انفرادی مغفرت کے نتیجے میں اس سے چھٹکارا مل جائے گا‘‘۔ یہ انداز فکر اسلامی احکامات، قرآنی آیات و اسلامی عقیدہ کے منافی ہے، توبہ و دعا استغفار قرآنی تعلیمات و احادیث نبویؐ سے ثابت ہے اس کی فضیلت و اہمیت مسلمانوں کے اجتماعی عقیدے سے مسلمہ ہے اس کی اہمیت و ضرورت آزمائش و مشکلات کے موقع پر رہی ہے اس کی اہمیت و ضرورت کو نظر انداز کرنا اسلامی عقیدہ و تعلیمات کے انکار کے مترادف ہے۔ ہمیں قرآن و احادیث مادی اسباب میں دوا اور ویکسین کی اہمیت و استعمال سے آگاہ کرتی ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کا حکم نہ ہو تو دنیا کی کوئی ایجاد دوا یا ویکسین سے شفا نہیں ہوسکتی۔ ہمیں اس عقیدے پر ایمان کے ساتھ تمام مادی اسباب خواہ مسلم کی ایجاد ہوں یا کافر ممالک کی استعمال کرنا چاہیے۔ کالم نگار کو یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ سائنسی علوم و فکر اور ایجادات ماضی میں مسلم معاشروں کا جھومر رہی ہیں یورپ کی سائنسی ترقی و ایجادات کے پس منظر میں مسلم اسپین و مسلم سائنسدانوں کے سائنسی علوم کے قابل فخر کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔