برطانیہ کورونا وائرس کے تباہ کن چنگل میں

238

31 جنوری کو برطانیہ میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی یوں ایک سو دن گزرگئے جس کے دوران امریکا کے بعد برطانیہ کو سب سے زیادہ کورونا وائرس کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس عرصے میں برطانیہ میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد دو لاکھ پندرہ ہزار سے تجاوز کر گئی اور اموات کی تعداد 34 ہزار تک پہنچ گئی جو یورپ میں سب سے زیادہ ہے اس کی وجہ دراصل اس وبا کو روکنے کے لیے حکومت کی ناقص حکمت عملی بتائی جاتی ہے اور ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے لاک ڈائون میں بہت دیر کر دی اور عوام کی جانیں بچانے کے بجائے زیادہ تر زور معیشت پر دیا گیا، نتیجہ یہ کہ نہ تو بڑے پیمانے پر اموات روکی جا سکیں اور نہ معیشت سنبھل سکی۔ بینک آف انگلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ اس سال ملک کو اس پیمانے کی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی مثال 1706کے بعد نہیں ملتی۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 35 فی صد کمی ہوگی اور 20 لاکھ افراد بے روزگارہو جائیں گے۔ کورونا وائرس کی ہمہ گیر تباہی کی وجہ سے جمہوریت کو بری طرح سے زک پہنچی ہے۔ گو بڑی مشکل پارلیمنٹ کے محدود اجلاس شروع ہو سکے ہیں اور ایوان میں اراکین کی نشستوں کے درمیان کافی فاصلہ رکھا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کا احتسابی عمل بے جان ہوگیا ہے نتیجہ یہ کہ جمہوریت کی جگہ حکومت کے تحکمانہ انداز نے لے لیا ہے اور انسانی ہمدردی کا عنصر معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس نے برطانیہ کے وفاق کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کردیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی حکومت نے لاک ڈائون کے بارے میں مرکزی حکومت سے یکسر مختلف پالیسی اختیار کی ہے اور سماجی میل ملاپ میں فاصلے برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، ویلز میں بھی حکومت نے لاک ڈائون کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں حکومتوں کی رائے ہے کہ اس وقت لاک ڈائون نرم کرنے سے کورونا وائرس کی دوسری مہلک لہر کا خطرہ ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گو برطانیہ میں کورونا وائرس اپنی انتہا کو پہنچ کر اب اس کا زور کم ہونے کا امکان ہے لیکن یہی بہت خطرناک مرحلہ ہو سکتا ہے اور وائرس کی دوسری لہر بپھر کر واپس آسکتی ہے۔ جرمنی میں لاک ڈائون میں نرمی کی وجہ سے وائرس نے دوبارہ پھیلنا شروع کردیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم حال ہی میں کورونا وائرس کے موت کے پنجہ سے نکل کر آئے ہیں اور اپنا منصب سنبھالا ہے لیکن اب انہیں اتنے ہی سنگین مسائل کا سامنا ہے خاص طور پر اس سوال کا جواب دینا ہے کہ برطانیہ میں یورپ سے کہیں زیادہ کورونا وائرس نے تباہی کیوں مچائی اور اس سلسلے میں ناقص حکمت عملی کیوں اختیار کی گئی۔ حزب مخالف کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس پورے مسئلے کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے اور یہ تعین ہونا چاہیے کہ اس وبا کو روکنے کے سلسلے میں حکومت کی حکمت عملی میں کیا خامیاں رہیں کہ جن کی وجہ سے اتنی زیادہ اموات ہوئیں۔ پچھلے سات ہفتوں کے دوارن عوام کے اندیشوں اور خطرات کو دور کرنے کے لیے دس ڈائوننگ اسٹریٹ میں حکومت نے ہر شام کو وزیر اعظم اور دوسرے وزیروں کی پریس کانفرنسوں کا اہتمام کیا تھا لیکن عوام کی اکثریت کو ان پریس کانفرنسوں سے پوری طرح سے تسلی نہیں ہوئی اور صحیح صورت حال کا علم نہ ہو سکا۔
اس دوران یہ تشویش ناک بات بھی سامنے آئی ہے کہ پچھلے سات ہفتوں میں کورونا وائرس سے سیاہ فام افراد اور ایشیائیوں کی ہلاکتیں سفید فام افراد کے مقابلہ میں زیادہ ہوئیں۔ اب تک کوئی اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہے۔ کیا نسلی اقلیتوں میں طبی سہولتوں کی کمی اس کی وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بھی بھرپور تحقیقات ہونی چاہیے۔ گزشتہ اتوار کو عوام کو توقع تھی کہ وزیر اعظم بورس جانسن لاک ڈائون کے بارے میں کسی واضح پالیسی کا اعلان کریں گے لیکن عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ فی الحال لاک ڈائون ختم کرنے کا وقت نہیں ہے، اگر حالات بہتر ہوئے تو اگلے ماہ اسکول دوبارہ کھولے جا سکتے ہیں اور حکومت ان افراد کو کام پر واپس جانے کی اجازت دے گی جو گھر سے کام نہیں کر سکتے لیکن انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ کام پر واپس جانے والے افراد کس طرح کام پر جائیں گے کیونکہ بسوں اور ٹیوب میں سماجی فاصلہ رکھنا مشکل ہے۔ واضح ہے کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ملک میں اقتصادی کارروائی جلد از جلد شروع ہو لیکن خطرہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے کورونا وائرس کی دوسری لہر ملک کو اپنے چنگل میں لے لے جو پہلی لہر سے زیادہ مہلک ثابت ہوگی۔