جلیل الدین
شاید چھٹی یا ساتویں جماعت کی سائنس کی کتاب میں آبی چکر یعنی واٹر سائیکل پڑھا تھا۔ سائنس کے اس باب میں نشاندہی کی گئی تھی کہ زمین پر آبی ذخائر کا پانی دھوپ کے باعث بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور فضا کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ کھلی فضا میں درجہ حرارت کم ہونے کے باعث یہ بخارات پھر پانی بن جاتے ہیں۔ بارش، اولے اور برف کی شکل میں دوبارہ زمین کا رْخ کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کا یہ چکر قومی خزانے کے نگرانوں کی باتوں کی شکل میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ جیسے ہی کوئی حکومت آتی ہے وزیر خزانہ ارشاد فرماتے ہیں ’’قومی خزانہ خالی ہے، قرض بہت ہے، بھاری رقم قرض اور سود کی شکل میں چلی جاتی ہے۔ ہم سادگی اور کفایت شعاری لائیں گے۔ عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہوگی‘‘۔ ان نعروں کے ساتھ وزیر خزانہ کی نگاہیں عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف اٹھتی ہیں۔ کشکول لے کر عالمی مہاجن کا رْخ کرتے ہیں۔ اس ادارے اور اقوام متحدہ کی عمر اور ارکان کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ دونوں کے صدر دفاتر امریکا میں ہیں۔ بھاری رقوم بھی امریکا ہی سے ملتی ہیں اس لیے بلغاریہ کی کرسٹالینا ہوں یا پرتگال کے انتونیو گوتریس سب ہی پنچوں کی رائے سر آنکھوں پر کہہ کر پرنالہ چودھری کی من پسند جا پر ہی گرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ادائیگیوں کے توازن میں مشکل کی صورت میں تعاون اور مالی حالت بہتر کرنے میں مدد کرنا آئی ایم ایف کے مقاصد کی فہرست کا حصہ ہیں۔ کسی بھی ماہر سود خور کی طرح یہ ادارہ بھی قرض دینے سے پہلے قرض خواست گار کی مالی حالت کا اندزہ کرتا ہے۔ مالی حالت بہترکرنے کا نسخہ تجویز کرتا ہے تاکہ آئندہ اصل زر اور سود کی وصولی یقینی رہے۔ معاشیات کی لمبی چوڑی نظری مباحث اور اصطلاحات سے ہٹ کر اس نسخہ کی سادہ سی بنیاد آمدن بڑھاؤ اور اخراجات کم کرو کے اصول پر ہوتی ہے۔ آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکس اور ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر اصرار ہوتا ہے۔ اخراجات کم کرنے کے لیے زر تلافی سے نجات، نج کاری اور کم افراد سے زیادہ کام جیسے زریں اصول بتائے جاتے ہیں۔ ان شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے قرض کی تمام رقم یک مشت نہیں دی جاتی بلکہ ادائیگی سہ ماہی قسطوں میں ہوتی ہے۔ ہر تین ماہ بعد مہاجن کے کارندے بہی کھولتے ہیں۔ شرائط پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہیں اور اطمینان بخش پیش رفت پر اگلی قسط جاری کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ چند سہ ماہی قسطوں کی وصولی اور عوام کے گِرد شکنجہ کسنے کے بعد فطری طور پر بعض اقتصادی اشاریے بہتر ہوتے ہیں۔ ان میں زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ خاص طور پر توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ یوں ہر وزیر خزانہ ایک ڈیڑھ، دو سال معیشت کا مرثیہ پڑھنے کے بعد معیشت کی بہتری کی نوید سنانا شروع کردیتا ہے۔ بین الاقوامی اخبارات، جرائد اور تھنک ٹینکس بھی معیشت کی بہتری کی تائید و توثیق شروع کردیتے ہیں۔ کوئی معیشت اٹھتی دیکھتا ہے تو کسی کو بلند پرواز نظر آتی ہے۔ کوئی کسی بڑے صنعتی گروپ میں شامل ہونے کی پیش گوئی کردیتا ہے۔ امریکا سے کام کرنے والی تینوں عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کو بھی بہتر مستقبل دکھائی دینے لگتا ہے۔ ابھی یہ شور جاری ہی ہوتا ہے کہ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے اور نیا وزیر خزانہ وہی پرانا راگ الاپنا شروع کردیتا ہے۔
ذرا یاد کیجیے شوکت عزیز حکومت کی رخصتی کے بعد پی پی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔ ن لیگ کے اسحاق ڈار ان کے وزیر خزانہ ہوئے۔ ڈار صاحب نے ایک دن صحافیوں کو جمع کرکے معیشت کی بدحالی کا خوب رونا رویا۔ ججوں کی بحالی کا وعدہ وفا نہ ہونے پر ن لیگ مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔ عبدالحفیظ شیخ، شوکت ترین وغیرہ وزیر خزانہ بنے۔ پانچ سال پورے کیے۔ قومی خزانے کی کنجی پھر ڈار صاحب کے ہاتھ لگی۔ انہوں نے تقریباً وہی کچھ کہا جو پی پی دور میں وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد کہا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سب ایک ہی طرح کے وعدے اور اعلانات کرتے ہیں لیکن اْلٹ کرکے چلے جاتے ہیں کوئی پوچھے تو پیمانے بدل لیتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں معاشیات کے نیوٹن شوکت عزیز صاحب عوام کی حالت سنبھالنے اور قرض گھٹانے کے دعوے کے ساتھ آئے۔ قوم کو بتایا گیا کہ کچھ عرصہ قرض کا گراف اوپر جائے گا۔ پھر ہموار رہے گا اور اس کے بعد نیچے آنے لگے گا۔ نائن الیون کے بعد کی مرئی اور غیر مرئی تائید و حمایت نے قوم کی قرض کم ہونے کی توقعات مزید بڑھادیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کسی صحافی نے وزیر اعظم شوکت عزیز کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی۔ وعدہ یاد دلایا۔ قرض بڑھتا دکھایا تو جواب آیا۔ قرض اور جی ڈی پی کا تناسب دیکھیں۔ پہلے یہ تھا اب یہ ہے۔ گویا پہلے قرض کا حجم پیمانہ تھا اب جی ڈی پی اور قرض کا تناسب پیمانہ ہوگیا۔ آگے چلیے۔ پی پی دور میں تیل کی قیمتیں اوپر تھیں لیگی دور میں نیچے آگئیں۔ ڈار صاحب سے سوال ہوا۔ حضور آپ پٹرولیم مصنوعات پر بھاری ٹیکسوں پر تنقید کرتے تھے۔ آپ نے تو مزید بڑھا دیے۔ جواب آیا۔۔ آپ فی صد پر کیوں جارہے ہیں۔ ٹیکس کی رقم پر جائیں۔ بات تو دل کو لگتی ہے۔ سو روپے کے پٹرول پر بیس فی صد ٹیکس لیں تو بیس روپے بنے گا۔ لیکن اسّی روپے پر بھی بیس فی صد ہی لیں تو سولہ روپے ہی حکومت کے ہاتھ آئیں گے۔ اس لیے ٹیکس بیس روپے لینے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے پڑے گی۔
متذکرہ اقوال و اعمال پچھلے عام انتخابات سے پہلے کے ہیں۔ کیا دو ہزار اٹھارہ کے یوم آزادی کے بعد نمودار ہونے والے صاف شفاف حکومت کے قیام کے بعد بھی وہی کچھ کہا اور کیا نہیں جارہا؟ یا واقعی کچھ تبدیلی آگئی ہے؟