وزیر اعظم سائیکل پر دفتر کیوں نہیں جاتے!

388

سید محمد اشتیاق
وطن عزیز کے اسمارٹ اور ہینڈسم وزیر اعظم عمران خان نے دنیائے کرکٹ میں دھوم اور اودھم مچانے کے بعد خدمت خلق کا فیصلہ کیا۔ اور موصوف چونکہ کے وسیع دل کے مالک ہیں۔ اس لیے فلاحی کاموں اور عمارتوں کے لیے وہ صدقہ و خیرات، چندہ و زکوٰۃ کے علاوہ عوام اور قومی کرکٹرز کو بھی صدقہ وخیرات، چندہ و زکوٰۃ مانگنے پر لگا دیا۔ جس کا گلہ گزشتہ دنوں سابق عظیم قومی بیٹس مین جاوید میاں داد نے بھی کیا۔ اور کہا: ’’جب قومی ٹیم میں تھے، وہ وقت ہے اور آج کا وقت مانگے ہی جا رہے ہیں‘‘۔ میاں داد صاحب نے یہ تاریخی کلمات کورونا کے حوالے سے کیے گئے ایک ٹیلی تھون کے بعد کہے۔ ہمارے دور اندیش وزیر اعظم اسپتال اور یونیورسٹی کی تعمیر کے بعد ہی اس حقیقت کو سمجھ گئے کہ صدقہ خیرات دینے سے نہیں، لینے سے معاشی استحکام نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے خدمت خلق کے جذبے کو مزید وسعت دی۔ اور وطن عزیز کو معاشی استحکام دلانے کی غرض سے میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ ایک طویل سیاسی و غیر سیاسی جدوجہد کے بعد ہمارے پیارے وزیر اعظم کو کچھ لے دے کر وزیر اعظم بننا نصیب ہوا۔ اپنی طویل سیاسی جدوجہد میں وزیر اعظم صاحب نے معاشی طور پر مستحکم مغربی ممالک کی حکومتوں کے نظام کا ایسے جائزہ لیا۔ جیسے مغربی سواحل سمندر پر بیٹھ کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وزیر اعظم بنا پروٹوکول سائیکل پر دفتر جائے تو ملکی معیشت چند لمحوں میں مستحکم ہو جاتی ہے۔ انتخابی جلسوں و غیر انتخابی جلسوں اور قوی نشریاتی رابطے پر ہونے والی مجالس خصوصاً اور تخلیے میں کی جانے والی مجالس خصوصیہ میں ہمارے وزیر اعظم نے مغربی ممالک کے معاشی استحکام کی وجہ وزیر اعظم کا بنا پروٹوکول کے سائیکل پر دفتر جانا بتائی۔ اکثر ماہرین معیشت کی سمجھ میں تو یہ فلسفہ نہ آیا۔ بس دو چار نامور صحافی اور اینکرز ہی اس فلسفے کی حقیقت تک پہنچ سکے۔
وزیر اعظم کے اس عظیم معاشی فلسفے کی مقبولیت کا اندازہ تو عام انتخابات 2018 سے قبل ہی ہو گیا تھا کہ عوامی و غالب غیر عوامی و ریاستی قوتوں نے عمران خان کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یوں تحریک انصاف کو عام انتخابات میں کامیابی ملی۔ قائد ایوان بننے کے لیے مطلوبہ نشستوں کی تعداد چونکہ کم تھی۔ اس لیے جنات اڑن کھٹولے کے ذریعے نشستیں بنی گالہ پہنچاتے رہے۔ اور عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب پورا ہوا۔ وزیر اعظم بنتے ہی اور مستقبل کی یونیورسٹی (!!وزیر اعظم ہائوس) مع اہلیہ محترمہ منتقل ہوتے ہی وزیر اعظم بھینسیں اور گاڑیاں گننے میں لگ گئے۔ جنات نے مشورہ دیا کہ ان سب کو اونے پونے بیچ کر ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو جائے گا۔بھینسیں اور گاڑیاں بیچی گئیں۔ لیکن معاشی استحکام کے آثار
نمودار نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم تو چونکہ مانگنے تانگنے کے ماہر ہیں۔ اور خود کو مانگنے تانگنے کا سب سے بڑا ماہر گردانتے ہیں۔ بالکل بھی پریشان نہیں ہوئے۔ بلکہ اپنے انتخابی وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر وزیر اعظم آفس بالا ہی بالا بذریعہ ہیلی کاپٹر آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا تو عوام کا ماتھا ٹھنکا۔ عوام کو جلد ہی کم خرچ بالا نشین کے درست معنی سمجھا کر سابق وزیر اطلاعات اور موجودہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے مطمئن کر دیا۔ موصوف کو موجودہ وزارت کا تحفہ ان کی اسی گراں قدر سائنسی معلومات کی وجہ سے عطا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت سنبھالتے ہی ملکی معیشت کے حالات روز بروز بگڑتے گئے۔ عوام اس انتظار میں تھے کہ وزیر اعظم بنا پرٹوکول سائیکل پر دفتر پر جائے گا تو ملکی معیشت سنبھل جائے گی۔ لیکن وزیر اعظم کو ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے دیکھ کر عوام سمجھے کہ ایک دفعہ پھر ہم سے ہاتھ ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم سائیکل پر دفتر کیوں نہیں جاتے۔ یہ ایک ایسا راز ہے کہ اس تک پہنچنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دانش مند افراد ہر بات کسی کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ اور الحمدللہ گزشتہ چند سال میں اس قسم کی دانش وزیر اعظم صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔ اس لیے انہوں نے تو کچھ نہیں بتایا کہ سائیکل چلانے کے ملکی معیشت پر کیا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک غیر معروف بڑ بولے ماہر معیشت سنجے ٹھاکر جن کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی، نے اس راز پر سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ سائیکل چلانا ملکی معیشت کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ موصوف یورو ایگزم بینک کے سی ای او ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’سائیکل چلانا ملکی معیشت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ چونکہ سائیکل چلانے والا نہ کار خریدے گا اور نہ کار لون لے گا۔ نہ کار کی انشورنس کرائے گا اور نہ ہی کار پارکنگ کی مد میں رقم ضائع کرے گا‘‘۔ سنجے ٹھاکر نے مزید انکشاف کیا کہ: ’’سائیکل چلانے والے کے جسم پر کیوں کہ چربی بھی نہیں چڑھے گی۔ نتیجتاً نہ وہ دوا خریدے گا اور نہ ہی اسپتال و ڈاکٹر کی راہ دیکھے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک صحت مند سائیکل سوار کا ملکی جی ڈی پی کوئی حصہ نہیں‘‘۔ وزیر اعظم تو ملکی معیشت کو ترقی دینے کا یہ راز بحالت مراقبہ جان گئے تھے۔ اسی لیے دفتر سائیکل پر بنا پوٹوکول نہیں جا رہے تھے۔ چونکہ ان کی دیکھا دیکھی تمام اداروں اور محکموں کے سربراہوں کو بھی سائیکل پر دفتر جانا پڑتا۔ جس سے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچتا۔ وزیر اعظم نے سائیکل پر دفتر جانے کے بجائے۔ عوام کو مرغی، انڈے اور کٹے کے تحائف دیے۔ تاکہ عوام ان کو کھا کر موٹے تازے بھی ہوں اور مرغیوں اور کٹوں کی نشو ونما میں بھی اضافہ ہو۔ ملکی رہن سہن کے اعتبار سے تکے کباب اور نہاری پائے کی جتنی بھی دکانیں اور ہوٹلیں کھلیں گی۔ عوام موٹے تازے ہوں گے۔ سائیکل کے بجائے گاڑیوں میں گھوما پھرا کریں گے۔ جسم پر چربی چڑھے گی۔ اور یوں عوام کا اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی طرف آنا جانا بڑھے گا اور یوں ملکی معیشت کو چار چاند لگ جائیں گے۔