سانحہ 12 مئی اور عدالتی نظام

263

بارہ مئی کی تاریخ پھر آئی اور گزر گئی ۔ روایتی طور پر وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بار کونسلوں میںاحتجاجی جلسے منعقد کیے ۔ یوں یہ معاملات آئندہ سال تک مزید ٹل گئے ۔ 12 مئی 2007 صرف ایک دن ہی نہیں تھا بلکہ ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس کے آئینے میں بہت کچھ دیکھا جا سکتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اس آئینے میں پاکستان کے عدالتی نظام کو جانچا سکتا ہے ۔ سارے ہی ثبوت موجود تھے ، عینی شاہدین میں وکلاء برادری بھی تھی اور جج صاحبان بھی مگر اصل صاحبان اقتدار کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ انصاف کیا جائے اور اصل مجرموں کو سزا بھی دی جائے ۔ سانحہ ساہیوال بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ سب کچھ سامنے تھا مگر مقدمہ کہیں پر غائب ہی ہوگیا اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں ۔ راؤ انوار بھی اسی طرح کی مثال ہے ، مقدمہ موجود مگر مجرم آزاد ۔ سرفراز کو بھرے پُرے بے نظیر شہید پارک میں دن دہاڑے قتل کردیا گیا ، اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں پر انصاف نے جان بوجھ کر آنکھیں موند لیں ۔ سب سے زیادہ حیرت تو بار کونسلوں پر ہی ہوتی ہے ۔ جب سے ملک میں وکلاء تحریک کامیاب ہوئی ہے ، بااثر وکلاء اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے فریق مخالف کی ٹھکائی کے ساتھ ساتھ ججوں پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ بس یہ وکلاء کہیں پر کمزور ہیں تو سانحہ 12 مئی ہے جس میں وہ خود بھی فریق ہیں ۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ 12 مئی کو پولیس سے ہتھیار لے انہیں بے دست و پا کردیا گیا تھا اور متحدہ قومی موومنٹ کے غنڈوں کو ہر طرح کی آزادی دے دی گئی تھی کہ جسے چاہیں اور جہاں چاہیں بھون ڈالیں ۔ اس کی گواہ تو پیپلزپارٹی کی شیری رحمن بھی ہیں ، جنہوں نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ انصاف کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گی ۔ اس وقت کے مشیر داخلہ تو کراچی کے میئر بنے ہوئے ہیں۔ جب بھی تحقیقات ہوں گی ، بات ان عناصر تک ضرور پہنچے گی جنہوں نے پولیس کو کوئی کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کی تھی اور رینجرز کو ان کے کیمپوں تک محدود رکھا گیا تھا ۔ یہی وہ عناصر ہیں جو انصاف سے خوفزدہ ہو کر وکلاء سمیت سب کو خوفزدہ کررہے ہیں ۔مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کے قتل تک ، لاپتا افراد سے لے کر سانحہ ساہیوال تک ایسے تمام کیس جن میں انصاف نہیں ہوا ، ذرا غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے پس پشت وہ عناصر ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں بلکہ قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر برس سانحہ 12 مئی کی برسی منانے کے باوجود بار اور بینچ خود بھی انصاف سے محروم ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ اب ہر برس 12 مئی کو سانحہ کراچی کی برسی منانے کے بجائے کراچی بار ایک کتاب مرتب کرے جس میں ہر برس ان کیسوں کا مزید اندراج کردیا جائے جن میں بوجوہ انصاف کا حصول ناممکن کردیا گیا ہے ۔ کم از کم یہ بات تو ریکارڈ پر لائی جائے کہ مجرم کون تھے ، جنہیں حکومت ، عدلیہ اور وکلاء بھی چاہنے اور پوری کوشش کرنے کے باوجود کٹہرے میں بلانے سے معذور ہیں ۔