بھارت اقلیتوں کے لیے خطرناک اور پاکستان اکثرت کے لیے

417

ایک امریکی کمیشن نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دے دیا ہے اور پاکستان نے بھارتی حکومت کی مسلم دشمن کارروائی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ تشویش زیادہ گہری ہے۔ ورنہ یہ معمول ہے کہ بھارت مسلم دشمن کارروائی کرے، پاکستان کی سرحدوں میں گھس آئے، مشرقی پاکستان کو الگ کروا دے، کارگل میں کوئی واردات کردے، کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دے، وہاں کا جغرافیہ اور آبادی کا تناسب بھی بدلنے کے اقدامات کردے، آٹھ ساڑھے آٹھ ماہ لاک ڈائون، قتل و غارت جاری رکھے، ہمارے حکمران تشویش، افسوس، گہری تشویش، گہرے افسوس، حیرت اور اب کے مار والا بیان دے کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ دو تین روز قبل صدر مملکت کا بیان یہ کہ پاکستان مرتے دم تک کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ ہاں اب تو لاک ڈائون اور کورونا نے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ساتھ کردیا ہے۔ بلکہ کراہاً کیا ہے ورنہ ہم کشمیریوں کا اتنا ساتھ بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ لیکن اب صورت حال اس قدر تکلیف دہ ہوگئی ہے کہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جارہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو وبا پھیلانے کا ذمے دار قرار دینے کے لیے پہلے میڈیا سے مہم چلائی جاتی ہے پھر ہجوم کو ان کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔ اب تو ایک بہت بڑا تضاد سامنے آگیا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھارت کی جانب سے اسلام کو کورونا سے جوڑنے کی سازش ناکام ہونے کی اطلاع دی۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن حوصلہ شکنی والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور الیکٹرونک میڈیا کورونا کو اسلام اور مذہب سے جوڑنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی آنکھ بند کرکے ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ مسجد جانے سے کورونا ہوجاتا ہے۔ وفاق اور سندھ کی لڑائی میں بھی اس امر پر اتفاق ہے کہ مسجد میں جانے اور نمازیں باجماعت ادا کرنے سے کورونا ہوجاتا ہے۔ تبلیغی جماعت سے کورونا پھیل رہا ہے، تبلیغ ہورہی ہے نہ وفود نکل رہے ہیں لیکن حکومت سندھ تبلیغی جماعت کے ارکان میں کورونا کی تشخیص کی رپورٹ دے رہی ہے۔ بہرحال حکومت اور میڈیا نے اسلام سے کورونا کا رشتہ جوڑ دیا ہے اور پاکستان میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کی حکومتوں اور غیر اسلامی حکومتوں کے رویوں میں بھی بڑا فرق نظر آرہا ہے۔ جرمنی میں جہاں پانچ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں وہاں سے لاک ڈائون نرم کردیا گیا ہے، چرچ اور مساجد کھول دی گئیں، نمازیوں کی محدود تعداد کے ساتھ تراویح کی بھی اجازت دے دی گئی ہے، جرمنی کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی اسی طرح کی نرمی کی گئی ہے جب کہ ان ملکوں میں کورونا سے متاثر ہونے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ملکوں نے کورونا کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش بھی نہیں کی، لیکن افسوسناک بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست مدینہ والی حکومت کے دور میں اسلام کو وبا کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ اسلام یا نماز کورونا کو پھیلانے کا سبب ہیں بلکہ اصل مسئلہ حکمرانوں اور میڈیا میں بیٹھے دین بیزار لوگوں کا ہے۔ انہیں تو خواب میں بھی مولوی ڈاڑھی اور مسجد میں تبلیغی جماعت میں کورونا نظر آتا ہے۔ اگر دوسرا پہلو دیکھا جائے تو کسی امریکی کمیشن کی رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب لوگ جاگتی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر، سرکاری راشن اور رقم کی تقسیم کے مواقعے پر، بینکوں میں، منڈیوں میں، لاک ڈائون میں نرمی کے دوران چھوٹی چھوٹی دکانوں پر سبزی گوشت کی خریدوفروخت کے موقع پر صحیح معنوں میں کھوسے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔ پورے ملک میں صبح سے شام تک چلت پھرت جاری رہتی ہے، ہر کام ہورہا ہے، سوائے چھوٹے تاجروں کے کاروبار کے اور مساجد میں باقاعدہ صحیح طریقے سے نمازوں کے، چھوٹے تاجروں، ٹرانسپورٹروں کو تو باقاعدہ سزا دی جارہی ہے، ایک چھوٹی دکان کا مالک بھی اب معاشی طور پر شدید دبائو کا شکار ہے۔ اس کے پاس جو دو ایک ملازم ہوتے ہیں ان کا حال بھی برا ہے بلکہ بہت برا ہے۔ ہماری ملاقات ایک اچھے خاصے بڑے کاروباری فرد سے ہوئی۔ کپڑوں کی معروف دکان ہے۔ ان سے کہا کہ آپ سے آن لائن کپڑا لیا تھا، واپس کرنا ہے، کہنے لگے کہ لاک ڈائون ختم ہونے پر… بھائی بہت برا حال ہے، بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، دعا کریں… یہ وہ دکان ہے جو اول درجے میں بھی شمار نہیں ہوتی اس کے پاس درجن بھر سے زیادہ سیلزمین ہیں جو بیس سے پچیس ہزار ماہانہ تنخواہ پاتے ہیں اور وہ دو ماہ سے انہیں تنخواہ نہیں دے رہے ہیں۔ اب آن لائن کاروبار شروع کیا ہے تو یہ ان کے کاروبار کا دس فی صد بھی نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام دکاندار کا کیا ہوگا، ملک کی بھاری اکثریت حکومتی پالیسی کی وجہ سے شدید کرب میں ہے، پورے ملک کے عوام مشکوک، کورونا کا ٹیسٹ مثبت آجائے تو اس کے ساتھ رویہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ ٹیسٹنگ خود مشکوک ہے، اس بیماری نے جتنا نقصان پہنچایا اس سے زیادہ حکمرانوں کے رویے نے پہنچایا ہے۔ اگر وفاق اور سندھ کے حکمران ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف نہ رہتے تو کورونا کے حوالے سے پورے ملک میں یکساں پالیسی نافذ ہوتی۔ فروری سے اب تک ڈھائی ماہ سے زیادہ گزر چکے، لاک ڈائون کو بھی دو ماہ ہونے کو ہیں اور وبا پر قابو ہی نہیں پایا جارہا۔ وجہ وہی ہے کہ پہلے ایک دوسرے پر قابو پالیں۔ پاکستان میں ایک اقلیت ہے جو حکومتوں میں موجود ہے اور ہر صوبے اور مرکز کے حکمران عوام کی اکثریت پر قابو پانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ رویہ صرف کورونا وبا کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ اس رویے کو کئی برس ہوگئے، پابندیاں عوام کے ذمے اور احتیاط بھی وہی کریں۔ حکمرانوں نے چندے جمع کرنے اور امداد مانگنے کے سوا کبھی کچھ نہیں کیا۔