جاوید انور، نارتھ امریکا
کورونا وائرس نے ایک نمایاں کام یہ کیا ہے کہ اس نے ہر انسان، ہر قوم، ہر آبادی، ہر ملک کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یعنی اس کے اندر جو کچھ چھپا تھا، اُسے ظاہر کر دیا۔ نہ صرف ظاہر کیا بلکہ اسے بڑھا دیا۔ اگر کسی کے اندر خوبی تھی تو وہ زیادہ بہتر شکل میں ظاہر ہوئی اور اگر خامی تھی تو اس کا بھی بدترین مظاہرہ ہوا۔
دنیا کے بعض بڑے سرمایہ داروں اور میگا کارپوریشنوں کے لیے یہ منافع پرستی کا بہترین موسم ہے۔ امپیریل طاقتیں دنیا کا نیا نقشہ بنا رہی ہیں۔ عالمی معاشی ادارے قلاش ممالک کو نئے قرضے دینے کی نئی شرائط بنا رہی ہیں۔ چیمبروں میں بیٹھ کر فیصلے کیے جارہے ہیں کہ کتنے علاقوں، اور کن وسائل و ذرائع پر قبضہ کیا جائے گا۔ ادھر لاکھوں کروڑوں انسان کورونا سے نہیں، بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ ان کے پاس روزمرہ خرچ کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے، ان کی مدد کے لیے بھی کوئی نہیں آرہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان اور ترکی میں عوامی سطح پر انسانوں کے لیے جذبہ خیرسگالی کا بھی بہترین مظاہرہ ہوا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پوری دنیا کے انسان بشمول مسلمان سائنس کو عملاً اپنا خدا بنا چکے ہیں جو خود ایک بے جان بت ہے اور سائنسدان اور ڈاکڑز ان کے پروہت بن چکے ہیں۔ وہاں جہل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق اب تک کورونا وائرس پر ماہرین کے کئی لاکھ سے زیادہ مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے چند بھی پڑھ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں سے کوئی بھی اس بیماری، اس سے بچنے کی تدابیر، اور اس کے علاج کے بارے میں کوئی یقینی علم نہیں رکھتا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگائنائزیشن (WHO) کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے این ڈی ٹی وی، انڈیا کے پرائم ٹائم میں رویش کمار کو انٹرویو دیا۔ رویش کمارنے کورونا وائرس سے بچائو کے لیے سماجی دوری، دو افراد کے درمیان فاصلے کا فٹ پیمانہ، تالہ بندی، وغیرہ ہر تدابیر سے متعلق سائنسی ثبوت مانگے۔ وہ ہر سوال کے جواب میں یہی کہتی رہیں کہ ’’انہیں (WHO کو) نہیں معلوم ہے‘‘۔ ’’ یہ بات ابھی زیر مطالعہ ہے‘‘۔ ’’یہ معاملہ ابھی زیر تحقیق ہے‘‘۔ وغیرہ۔ وہ بھارتیوں کو کہتی ہیں کہ ’’انہیں مقامی طب ویدک وغیرہ میں بھی تحقیق کرنی چاہیے‘‘۔ رویش کمار نے سوال کیا کہ یہاں گائے کے پیشاب سے بھی علاج بتایا جا رہا ہے، کیا اس پر بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسداں نے گائے کے پیشاب پر بھی تحقیق سے انکار نہیں کیا۔ لاک ڈائون سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے ادارہ عالمی صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کبھی لاک ڈائون کا مشورہ نہیں دیا۔ اب معلوم کیا جانا چاہیے کہ جب ڈبلیو ایچ او نے یہ مشورہ نہیں دیا تو کس کے اشارہ یا حکم پر پوری دنیاکو تالہ بند کردیاگیا ہے۔
سائنس اور سائنسدانوں اور اس کی سرپرست ریاستوں سے چاہے جتنے سوالات کرتے جائیں ان کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ رویش کمار کے پروگرام ہی میں بھارت کے پبلک ہیلتھ کے ایک ماہر ڈاکٹر میتھو ورگیز نے کہا کہ ’’لاک ڈان پبلک ہیلتھ نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے اور جو یقینی بیمار تھے انہیں قرنطین کرنا چاہیے تھا نہ کہ ان چند کی وجہ سے پوری آبادی کا لاک ڈاون‘‘۔
آج مسلمانوں میں قرآن و سنت کی بات کرنے والے اجنبی بن چکے ہیں۔ علما کے یہاں بھی اس کی ہدایات پس پشت چلی گئی ہیں۔ سائنس کے اندازے، وسوسے اور واہمے، اور سائنسدانوں کے متضاد بیانات، زیر تحقیق نامعلوم حقیقت،علما کے فیصلوں اور فتووں کی بنیاد بن رہے ہیں۔ العلم اور العالم کی باتیں پرانی، اجنبی اور متروک ہو چکی ہیں۔ شمالی امریکا میں نیویارک اور اس کے مضافات میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی تجہیز وتکفین و تدفین کے لیے ہزاروں موجود اماموں میں سے چند ہی راضی ہو سکے۔ سب پر خوف طاری ہے۔ مرحومین کے قریب ترین رشہ دار بھی لاشوں کو دفنانے سے دور ہٹ گئے ہیں۔ دو تین افراد کی موجودگی میں تدفین ہو رہی ہے۔ آج نارتھ امریکا کے اماموں کی اکثریت اور نام نہاد علما، پی ایچ ڈی اسکالز اور دھواں دھارکانفرنسوں کے اسپیکرز کے اسلام اور ایمان کی حقیقت نمایاں ہو گئی ہے۔ کینیڈین کونسل آف امام (اکثریت اس امام کونسل میں شامل نہیں ہیں) نے مساجد میں جمعہ کی نماز بند کرنے کا اعلان اس جمعہ سے کر دیا تھا جب حکومت کی طرف سے ابھی کوئی اعلان بھی نہیں آیا تھا۔ سارے دفاتر اور تجارتی ادارہ کھلے تھے حتیٰ کہ سارے اسکول بھی کھلے تھے۔ اس جمعہ کی شام میں حکومت کی طرف سے سماجی اجتماع کی حد دو سو پچاس رکھی گئی تھی۔ ایک بڑی مسجد نے اسی دن سے پنج وقتہ نماز بھی بند کر دی تھی (تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف کے باعث)۔ بعد میں حکومت کی طرف سے تعداد پچاس اور آخر میں پانچ کر دی گئی۔ اور اس طرح تمام مساجد بند ہوگئیں، اور اب ویران ہو گئیں۔ کہیں کہیں فرض نمازیں انتظامیہ کے دو چار رکن، جنوں کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ رمضان گزر رہا ہے۔ سال میں ایک نماز عید پڑھنے والے بھی اس بار محروم رہیں گے۔ اسلامی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ مصیبت کے وقت مسلمان مسجد کی طرف دوڑنے کے بجائے مسجد سے دور بھاگ رہے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمانوں کی اس کیفیت کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وبا کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حرمین کو عام نمازوں، جمعہ کی نماز، حتیٰ کہ طواف تک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
جب کینڈا کے ایک وفاقی وزیر، کینیڈین کونسل آف امام کے سامنے کورونا وائرس سے متعلق پابندیوں کے متعلق یہ اطلاع دے رہے تھے تو انہوں نے یہ مشورہ دیا تھاکہ اگر آپ لوگ کہیں تو ہم عبادت گاہوں کو مستثنیٰ کرنے کی تجویز دیدیں۔ لیکن اماموں نے مسجدیں بند کرنے کی رضا مندی دی۔ اس طرح انھی کی تجویز پر مساجد بند ہو گئیں۔ واضح رہے کہ امریکا میں پچیس کے قریب ریپبلکن ریاستوں نے عبادت گاہوں کو لازمی سروس میں شامل کیا ہے، اور وہاں کی عبادت گاہیں کھلی ہیں۔ اب جب کہ کینیڈا کی مختلف صوبائی حکومتیں آہستہ آہستہ جن اداروں کو کھول رہی ہیں اس لسٹ کے حساب سے ایسا نہیں لگتا کہ عبادت گاہیں عن قریب کھلنے والی ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں لاک ڈائون ہے اور جہاں مساجد اور مدارس بند ہیں ان کے چندے کے ذرائع بھی بند ہو گئے ہیں۔ اماموں اور مدرسین کی تنخواہیں بند ہیں۔ بھارت میں تو اس کے تباہ کن نتائج نکلنے والے ہیں۔ بڑے مدارس کے اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ ایک خوفناک سوال یہ ہے کہ یہ مدارس کیا اب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔
شمالی امریکا کی صورت حال بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ ٹیک اسمارٹ اور سوشل میڈیا کے ماہر ادارے ورچوئل (virtual) جمعہ خطبہ سے چندہ کی مہم چلا رہے ہیں۔ روایتی مساجد اور مدارس کے لیے مشکلات ہیں۔ مزید برآں یہاں کئی مساجد بینکوں سے قرض لے کر بنائی گئی ہیں۔ جس کے لیے ہر ماہ اچھی خاصی رقم مارگیج میں دینی ہوتی ہے (سود نہیں لکھ رہا کہ اس لفظ سے منتظمین ناراض ہوتے ہیں)۔ ان مساجد کا قرض دیگر پہلے سے قائم مساجد کی ضمانت (collateral) پر لیا گیا ہے۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ جمعہ کی جمع رقم ہے جو اب بند ہو چکی ہے۔ تو ان مساجد کا مستقبل کیا ہوگا؟ عام طور پر کہا جارہا ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا بہت مختلف ہوگی۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ دنیا بہتر ہوگی یا بدتر۔ وہ جو چند ’’مسلمان‘‘ بغیر خراش کے بچ جائیں گے، ان کی ذمے داری اب بہت بڑی ہے۔