خالق کا پیغام اور بنی نوع انسان

488

شہلا خضر
کورونا وائرس کی اتنے بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں کسی بھیانک خواب کی طرح دکھائی دے رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور ترقی یافتہ اور سپر پاور ممالک ایک ننھے سے خورد بینی جرثومے کے سامنے بے بس اور لاچار اور غیبی طاقت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ وہی مخلوق خدا جو اپنے پیدا کرنے والے رازق کو فراموش کر کے ’’لادینیت‘‘ اور ’’الحاد‘‘ کا شکار ہو چکی تھی اور تسخیر کائنات کے بلند بانگ دعوے کررہی تھی، اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور ترقی کی شکست کے بعد ہم سب کے سامنے وہ رب کائنات سے گڑگڑا گڑگڑا کر رحم اور مدد کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ آج جس طرح پوری دنیا خوف، بیماری، بھوک اور تباہی کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے، ایسے کئی دور انسانی تہذیبوں پر گزر چکے ہیں، جن کی واضع تفصیلات ہمیں قرآن پاک میں ملتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتنی شدید پکڑ کے باوجود بھی حق کی پہچان اور حق پر ایمان لانے والے چند ہی گروہ تھے۔ ایسا نہیں ہوا کہ طوفان نوح کے بعد کی تمام نسلیں مسلم ہو گئیں، یہی صورت حال ہم فرعون مصر کے غرق ہونے کے بعد، اور عاد، ثمود اور مدین کی بربادی کے بعد بھی دیکھتے ہیں۔
آج بنی نوع انسان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ نفس پرستی اور مادہ پرستی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ وہ کسی طور بھی ان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ مادہ پرستی کی وجہ سے آخرت کا تصور بھی دھندلا گیا ہے، اور سب کچھ وہ اسی دنیا میں حاصل کرنا ہی کامیابی تصور کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے آج جب خطرناک وبا نے حملہ کیا تو زندگی کھو دینے کا خوف ان کے اعصاب پر اس قدر طاری ہے کہ کھربوں روپے لگا کر جلد از جلد اپنی جان کو بچا لینے کی تگ و دو میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ یوں تو انسان اللہ کی ایک معمولی سی مخلوق ہے، جسے تیز دھوپ برداشت نہیں ہوتی، نرم بستر کے بغیر نیند نہیں آتی، کچا کھانا ہضم نہیں ہوتا، پانی کے بغیر جینا محال ہے، پر ناشکری اور خود پرستی کا یہ حال ہے کہ کائنات کی کروڑوں نعمتوں سے تو فیض یاب ہو رہا ہے پر انہیں فراہم کرنے والے ربّ کو ہی فراموش کر دیا۔ اور یہی احسان فراموش انسان نے ربّ کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔
خود ساختہ سائنسی توجیہات اور تحقیقا ت کے بل بوتے پر نظام کائنات کی تخلیق اور بقا کے بھونڈے جواز بنا ڈالے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مکمل مربوط نظام ِ کائنات پر غور کرنے کے بعدبھی خود کو دانا اور جینیس کہلانے والے سائنسدان خدا کے وجود سے کیسے انکار کر سکتے ہیں؟ مشہور زمانہ سائنسدان نیوٹن کے قوانین حرکت ہی کا اصول ہے ’’For every action there is always an equal and opposite reacion‘‘
اب بھلا ان genius سائنسدانوں سے کوئی پوچھے کہ ’’کائنات کی لاتعداد کہکشائیں کیسے کسی بھی قوت کے بغیر خود سے حرکت میں ہیں؟؟۔ تجربات کے ذریعے سائنس ہی یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسانی ذہن اور نظر کی حد بہت محدود ہے، اگر ہم کمرے میں موجود کسی ایک چیز کو بغور دیکھ رہے ہوں تو گرد و پیش سے کسی حد تک غافل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آسمان کی وسعتوں کو ناپنے کے لیے ہمیں دیو ہیکل دوربین مثلاً ’’ہبل‘‘ (Hubble) کا سہارہ لینا پڑتا ہے۔ اتنی محدود قوت سمع وبصر کے ساتھ ہم کیسے خود کو اس کائنات کی نا قابل تسخیر اور خود مختار مخلوق سمجھ سکتے ہیں؟؟
جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کوئی نہ دکھائی دینی والی قوت ہے جو کائنات کے تمام اجسام بشمول سورج، چاند، ستارے، اور اربوں کہکشائوں کو تھامے ہوئے ہے، اور انہیں حرکت دینے کے لیے مقناطیسی کشش بھی فراہم کرتی ہے۔ اس مادے کا نام سائنسدانوں نے Dark matter رکھ دیا۔ حالانکہ یہ نظر نہیں آتا تو اس کا نام Invisible matter بھی رکھا جا سکتا تھا، پر حفظ ما تقدم کے طور پر کہ کہیں ان کی یہ کھوج کائنات کی دکھائی نہ دینے والی قوتوں کی طرف دنیا کو متوجہ نہ کر دے۔ اور عقاید اسلام کا مرکز ہی دکھائی نہ دینے والی ہستیوں مثلاً اللہ پاک، فرشتے، جنت دوزخ، اور ارواح وغیرہ پر مشتمل ہے تو سائنس دانوں نے نہا یت ہوشیاری سے کام لیا اور اس نادیدہ قوت کو Dark matter کا نام دے دیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے چاند سورج ستاروں اور رات اور دن کے آنے جانے کو عقل والوں کے لیے اپنی بڑی نشانیاں کہا، اور ان پر غور کرنے کو کہا۔ اگر آج ہم مسلمان اپنی اس ذمے داری کو سمجھتے تو یہ رصد گاہیں اور بڑی بڑی خلائی دور بینیں ہم بناتے اور دنیا کو کائنات کی اصل تصویر دکھاتے جو قرآن اور حدیث کے علم کے عین مطابق ہوتی۔۔
کافرکی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
اس کے علاوہ سائنس دانوں کی ہٹ دھر می اور ڈھٹائی کی دوسری بہت بڑی مثال مشہور زمانہ متنازع چارلس ڈارون کی ’’Theory of evolution‘‘ ہے۔ اس تھیوری کی رو سے سب انسان کسی خورد بینی کیڑے ’’Ameoba‘‘ کی ارتقاء تبدیلیوں سے پہلے مچھلی پھر رینگنے والا جانور اور پھر بندر سے انسان تک کی تخلیق پر پہنچ گیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نظریہ کو 1859میں پیش کیا گیا، اور کسی مسلمان سائنسدان کے پاس اس زمانے میں اتنی قابلیت ہی نہیں تھی کہ وہ اس کفرانہ نظریے کو چیلنج کرتے اور آج بھی یہ ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی درسی کتب میں پڑھایا جاتا ہے۔ کالج کی لیکچرار نے ہمیں بھی طالب علمی کے زمانے میں اس نظریے کو بہت محنت اور توجہ سے پڑھایا تھا، اور اسلام کے نظریہ انسانی تخلیق کے متعلق ہم سب کے ذہنوں کو مختلف قسم کے ابہام میں مبتلا کر دیا تھا۔ حالانکہ 1933میں D.N.A کے ڈبل ہیلکس ڈھانچے کی دریافت سے سائنس یہ جان گئی تھی کہ انسانی جینز کی ترتیب اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بھی تبدیلی اس کی ساخت میں نہایت مشکل ہے اور single cellکے جاندار کا multicellular جاندار بن جانا تقریباً ناممکن ہے۔ مگر چونکہ دنیا کا تمام تر تحقیقاتی کام تقریباً ایک ہزارسال سے مغرب ہی کے مرہون منت ہو رہا ہے اس لیے۔ ہم مسلمان ان کے ہر نظریے اور ہر تحقیق کو ماننے کے لیے مجبور ہیں۔ ان سب عوامل سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مغربی سائنس سے مرعوب ذہن جانتے بوجھتے اسلام دشمنی میں کبھی بھی آفاقی سچائیوں کا اعتراف نہیں کریں گے، کیونکہ اگر انہوں نے اسلام کے بتائے انسانی تخلیق کے نظریے کو سچ مان لیا تو انہیں اس نظریے کو ہم تک پہنچانے والے پیغمبر سیدنا محمدؐ پر اور ان کی لائی آسمانی کتاب پر بھی یقین کرنا ہوگا مگر وہ آج بھی ڈارون کے پٹے ہوئے نظریے انسانی ارتقاء سے چپکے ہوئے ہیں انہیں پیشہ ورانہ بددیانتی کرنا تو منظور ہے پر اسلام کی برتری انہیں ہرگز قبول نہیں۔
آج 500 سال بعد اسپین کی سرزمین پر بلند ہوتی ایمان افروزاذان کی صدائیں، دنیا کے سب سے بڑے الحادی ملک چین کی مساجد میں دعائیہ تقریبات کا ہونا، فرانس جیسے اسلامی شعائر کا مزاق اڑانے والے ملک کی بالکونیوں میں مسلم کمیونٹی کا ببانگ دہل اذان اور دعائیں کرنا یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت اور اختیار کے مالک رب نے ہمیں دکھا دیا کہ کائنات میں حکم اور مرضی صرف اور صرف اسی کی چلے گی، اور بھٹکے ہوئے انسان کو واپس اس کے مقامْ پر پہنچا دیا۔ کل تک global village کی تکرار کرنے والے آج social distancing پر اصرار کر رہے ہیں۔
آج سب کھیل تماشے، کلب، جم، بازار ناچ گانے کی پارٹیاں، بے حیائی کے اڈے سب کے سب بند ہیں، ہر گھر میں اللہ کا ذکر، نماز، قرآن پڑھا جا رہا ہے۔ چین، جاپان، فرانس، اٹلی اور امریکا جیسے سپر پاور ممالک جن کے Think tanks کی مستقبل کی پیشگی پلاننگ کئی دہایوں تک کی تیار کر رکھی تھی آج آنے والے اگلے لمحے کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ آج گھروں میں ’’ریسٹرین سینٹرز (restrain center)‘‘۔ میں بیٹھ کر شاید بے حس اور بے ضمیر انسان اس خوف دکھ اور قید تنہائی کو محسوس کر پائیں جس میں ایغور کے مظلوم عوام، روہنگیا کے بے گناہ شہری، کشمیر کے نہتے بے بس اور لاچار مسلمان اور درجنوں فلسطینی، یمنی اور شامی باشندے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
جزبۂ ایمانی رکھنے والے تو اس تمام صورتحال میں خود احتسابی ضرور کریں گے پر کفر کرنے والے کبھی بھی مشیت الٰہی کی حکمتوں کا ادراک نہیں کر سکتے۔حدیث پاک ہے۔ ’’اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں گے تو اللہ خاص وعام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے‘‘۔ اس حدیث کے تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں برائی کو نہ روک کر ہم بھی خدا نخواستہ عذاب الٰہی کے مستحق نہ ٹھیریں۔۔۔