دو ماہ قبل عبدالستارایدھی لائن کےلئے کھودی گئی سڑکیں تعمیر نہیں کی جا سکی

240

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری)عبدالستارایدھی لائن(اورنج لائن)کیلئے دو ماہ قبل کھودی گئی سڑکیں تعمیر نہیں کی جا سکی ہے جس کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن آنے اور جانے والےشہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دو ما ہ قبل عبدالستار ایدھی لائن (اورنج لائن) پر وجیکٹ والو ں نے اورنگی ٹاؤن 5نمبر چورنگی سے ڈی ایم سی غربی آفس تک دو طر فہ روڈ کو بنا نے کی غرض سے کھودا تھا لیکن تا حال روڈ بنا نے کا کام شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔

جس کی وجہ سے روڈ پر دھو ل مٹی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے اس وقت چو رنگی کی حالت ریگستان کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔

بالو مٹی ہو نے کی وجہ سے مو ٹر سا ئیکل، رکشہ اور دیگر گا ڑ یا ں اس میں پھنس جا تی ہیں،یہا ں سے گزرنے والی ہزاروں گاڑیاں اور پید ل چلنے والے شہری مشکلات کا شکا ر ہیں۔

دوسری جانب اورنگی ٹاؤن کی مرکزی چورنگی نمبر5سے اطراف کو جانیوالی سڑکیں انتہائی خستہ حالی کاشکار ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے سفر کرنیوالے شہریوں کو سخت اذیت کا سامنا ہے۔اورنگی ٹاؤن نمبر5پر کاروبارکرنیوالا طبقہ اور رہا ئش پذیر افراد مسلسل اُڑتی دھول مٹی سے مختلف بیما ریو ںکا شکا ر ہو نے لگے ہیں۔

عبدالستار ایدھی لائن (اورنج لائن)پروجیکٹ کے حوالے سے جب اورنگی کے لوگوں سے بات کی گئی تو انہوں نے شکایتوں کے انبار لگادیے، کسی نے کہا کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ یہ کونسا منصوبہ ہے اور کیا بنایا جارہا ہے، بس اتنا معلوم ہے کہ سڑک بنائی جارہی ہے۔

ایک محنت کش نے کہا کہ ’’ہم تو ساری زندگی یہی دیکھتے آئے ہیں،حکومت سڑکیں کھود کر چھوڑ دیتی ہے اور ہم خوار ہوتے رہتے ہیں،معلوم نہیں کام جلدی کیوں نہیں مکمل ہوتے ہیں‘‘۔

چنگ چی رکشوں سے تنگ ایک مسافر نے اپنا درد کچھ یوں بیان کیا کہ ’’پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا کوئی ولی وارث نہیں ہے،ہمیں چنگ چی رکشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔

غصے سے بھرے ایک نوجوان نے تو اس پروجیکٹ کو ہی غیر ضروری قرار دے دیا اور کہا کہ، ’’اس پروجیکٹ کے شروع ہونے سے پہلے سڑکوں کی حالت بہت اچھی تھی اور ٹریفک کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا،بورڈ آفس تک آرام سے سفر ہوجاتا تھا لیکن جب سے کھدائی ہوئی ہے سڑکیں تباہ ہوگئیں ہیں اور بورڈ آفس تک کا سفر عذاب بن گیا ہے‘‘۔

اورنگی ٹاؤن سے اس منصوبے کے راستے پر روزانہ سفر کرنے والے ایک مسافر نے بتایا کہ پروجیکٹ کے آغاز سے لے کر اختتام تک کمپنی نے حفاظتی اقدامات کو پوری طرح نظر انداز رکھا ہے۔

کہیں بھی وارننگ سائنز نہیں لگائے گئے نہ ہی ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے متبادل سڑکوں کا انتظام کیا گیا ہے۔

باچا خان فلائی اوور سے پہلے اور بعد کی سڑک کا حال تو سب سے زیادہ خراب ہے، یہاں ہر وقت دھول اڑتی رہتی ہے اور مٹی کے بادل سے چھائے رہتے ہیں جس سے بچے اور بڑے سب ہی سانس اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس علاقے میں منصوبے کے لیے گہری کھدائی بھی کی جارہی ہے لیکن حفاظتی اقدامات نا پید ہیں اور لوگوں کو کسی بھی خطرے سے آگاہ کرنے والے سائن بورڈ ز نہیں لگائے گئے۔

اس کے علاوہ علاقے میں اسٹریٹ لائٹ کا بھی انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں حادثات کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔اورنگی ٹاؤن کے رہائشیوں نے وزیرِ اعلیٰ سند ھ سید مراد علی شاہ وزیر بلدیا ت سید ناصر حسین شاہ،میئر کراچی وسیم اختر اور تما م متعلقہ اداروں سے اپیل کی کہ یہا ں پر رہنے اور گزرنے والو ں کی حالت زار پر رحم کیا جا ئے اور اس سڑک کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ اورنگی ٹاؤن کی عوام کو اس مشکل سے نکا لا جا سکے۔

واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی لائن (اورنج لائن) بس منصوبے پر کام کا باقاعدہ آغاز 11 جون 2016 کو ہوا تھا اور کراچی میں بننے والے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (BRTS) میں یہ سب سے چھوٹا منصوبہ ہے جس کی طوالت صرف 3.9 کلو میٹر ہے۔

اس منصوبے میں بس خصوصی سڑک پر کراچی کے ضلع غربی میں واقع اورنگی ٹاؤن سے چلے گی اور بورڈ آفس نارتھ ناظم آباد میں اس کا آخری اسٹیشن ہوگا، یہ روٹ اتنا مختصر ہے کہ اس میں محض 4 اسٹاپ بنائے گئے ہیں۔