غریب مرتے ہیں تو مریں

391

2018 کی بات ہے عدالت عظمیٰ نے دریافت کیا تھاکہ ’’پاکستان میں تیل کی قیمتیں کون مقرر کرتا ہے اور اس سلسلے میں جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے وہ کیا ہے‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے حکومت کو دس دن کا وقت دیا تھا۔ نہ جانے حکومت نے کیا جواب دیا تھا۔ ہمیں تو سوال ہی غلط لگا۔
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
پاکستان میں سوال کو حکمران ذہنی خلجان باور کرتے ہیں۔ سوال کرنے والے خود تو بے خبری کی جنت سے نکلے ہوئے ہوتے ہی ہیں حکمرانوں کو بھی اس جنت سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ بے خبری ایک احساس برتری کو جنم دیتی ہے جو حکمرانوں کا عمل بھی ہے اور طرزعمل بھی۔ وہ جن سے سوالات کیے جاتے ہیں، اول تو دستیاب ہی نہیں ہوتے اور اگر دستیاب ہو بھی جائیں تو ان کی بے خبری اور لاپروائی دیدنی ہوتی ہے۔ جن دنوں پاکستان میں ٹماٹر 200 روپے کلو سے زائد فروخت ہورہا تھا مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کس طرح مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ منڈی میں ٹماٹر 17 روپے کلو بک رہا ہے۔ نہ جانے کس نے کہا تھا کہ اگر منیر نیازی چین میں ہوتے اور یہ شعر کہتے تو مسترد کردیے جاتے کیونکہ اہل چین سوال کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں سوال کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا غلط تو جواب ہوتے ہیں۔ یہ بات پاکستان کے حکمرانوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ جو یا تو سوال کا جواب دینا شان کے منافی سمجھتے ہیں، اگر جواب دیتے بھی ہیں تو غلط دیتے ہیں یا پھر بے خبری کی چادر میں پناہ لے لیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پابندی کے باوجود بھارت سے اربوں روپے کی 450 سے زائد ادویات درآمد کرلی گئیں۔ 2019 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ردعمل میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت پر پابندی عائد کردی تھی۔ تب کہا گیا کہ اس پابندی کی وجہ سے جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ وفاقی حکومت کو کینسر وغیرہ کی ادویات بھارت سے درآمد کرنے پر مجبور کیا گیا تاہم جب ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ذریعے اس اجازت کی سمری وزارت تجارت کو بھیجی گئی تو اس میں زندگی بچانے والی ادویات کے بجائے علاج کے سامان کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ یوں بھارت سے ہر طرح کی دوائیں درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جب کابینہ کے اجلاس میں اس بارے میں سوال کیا گیا تور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت اور سیکرٹری صحت مطمئن نہ کرسکے۔ معاون خصوصی نے موقف اختیار کیا کہ فہرست کی تیاری میرے علم میں نہیں۔ چلیے معاملہ ختم۔ بے خبری جنت ہے۔ اس سے پہلے 8کروڑ 50لاکھ ڈالر مالیت کی ٹائی فائڈ ویکسین بھی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر اور تجارتی پابندی کے باوجود بھارت سے درآمد کرلی گئی تھی۔
29اپریل کو خبر آئی۔ ’’وزیراعظم کا ملکی تاریخ کا بڑا اقدام، قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی منظوری دے دی‘‘۔ تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ وزارت مذہبی امور نے وفاقی حکومت کے سامنے ایک سمری پیش کی جس میں آئین پاکستان اور 1993 کی قرارداد کے مطابق اقلیتی کمیشن تشکیل دینے کی سفارش کی گئی تاہم اس میں قادیانیوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں پتا چلا سمری میں قادیانیوں کا نام بھی شامل تھا یا وزیراعظم کی خواہش پر ایسا کیا گیا۔ وزیر مذہبی امور نور الحق قادری سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ قادیانیوں والی شق سمری میں کس نے ڈلوائی۔ گندم چینی اسکینڈل سامنے آیا تو اس وقت وزیر خوراک کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں علم نہیں کہ ان کے بھائیوں کو سبسڈی کون دیتا رہا۔
وزیراعظم کی طرف دیکھیں تو وہ بے خبری کے مائونٹ ایورسٹ پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ انہیں بیش تر خبریں ٹی وی سے پتا چلتی ہیں۔ ان کے بیانات بھی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے فرمایا کہ لاک ڈائون اشرافیہ نے کروایا ہے۔ اشرافیہ میں صنعتی ترقی میں پیش پیش طبقہ شامل ہے۔ لاک ڈائون نے تو اس طبقے کی تمام سرگرمیاں معطل کردیں۔ یہ طبقہ کیوں چاہے گا کہ لاک ڈائون لگے۔ وزیراعظم خود بھی لاک ڈائون کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ پہلے دن سے لاک ڈائوں کے مخالف تھے۔ اشرافیہ سے کہیں وزیراعظم کا اشارہ ان قوتوں کی طرف تو نہیں جنہیں کبھی خفیہ ہاتھ، نادیدہ طاقتیں، فرشتے کہا جاتا تھا۔ نواز شریف خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کہا کرتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ لاک ڈائون کرنا چاہتی تھی۔ کیا وزیراعظم کی اشرافیہ سے اسٹیبلشمنٹ مراد ہے۔ اب اسے بے خبری کے کھاتے ہیں ڈالا جائے یا زبان کی لغزش کے جس کا وزیراعظم ایک طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔
پاکستان میں ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 80روپے 10پیسے ہے۔ چوبیس اپریل کو عالمی منڈی میں ڈیزل کی فی بیرل قیمت 16.27ڈالر تھی۔ ایک بیرل میں 159 لیٹر ہوتے ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں ڈیزل کی قیمت 16روپے 27پیسے فی لیٹر ہونی چاہیے۔ گویا عالمی منڈی کے اعتبار سے پاکستان میں فی لیٹر 63روپے 37پیسے زیادہ وصول کیے جارہے ہیں۔ دنیا میں ہر ملک پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ شرح دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ڈیزل پر عائد ٹیکس کی شرح 15.49کو بڑھا کر 30روپے کردی۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس بھی عائد ہے۔ ہماری حکومت نے ایک لیٹر ڈیزل پر 42مختلف ٹیکسز بھی عائد کر رکھے ہیں۔ پٹرول کے معاملے میں صورتحال اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ حکومت عالمی منڈی کے مقابلے میں 73.47پیسے زیادہ وصول کررہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ڈیزل کو ریفائن کرنے کی قیمت 16.37 روپے فی لیٹر ہے جب کہ پاکستان میں ڈیزل کو ریفائن کرنے کی قیمت ہے 30.99 روپے ہے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کو ریفائن کرنے کی قیمت ہے 8.11 روپے ہے جب کہ پاکستان میں یہ قیمت 35.73 روپے ہے۔ پاکستان میں تیل کی سالانہ کھپت 32ارب لیٹر سالانہ ہے۔ اس تناسب سے صارفین سے سالانہ 500ارب روپے زائد وصول کیے جارہے ہیں۔ بات اس سوال سے چلی تھی کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں کون مقرر کرتا ہے اور اس کا کیا طریقہ کار ہے۔ آج یہ سوالات 2018 سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں جارہا ہے۔ فائدہ اٹھانے والوں میں کون کون شامل ہیں۔ اس رقم کا کتنا حصہ عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہورہا ہے۔
ایک طرف یہ لوٹ کھسوٹ ہے دوسری طرف عمران خان کی حکومت لوگوں کی فلاح بہبود پربرائے نام بھی خرچ کرنا نہیں چاہتی۔ کورونا کی وجہ سے حکومت کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر ذرائع سے مزید پیسے مل رہے ہیں۔ قسطوں کی ادائیگی میں بھی رعایت مل رہی ہے۔ حکومت سختی سے ایک مہینہ بھی لاک ڈائون کرتی اورصرف پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہونے والا منافع ہی ان غریبوں اور دہاڑی داروں پر خرچ کردیتی جن کا غم عمران خان کو ہردم ستاتا رہتا ہے تو دیگر ممالک کی طرح کورونا کا گراف بھی نیچے آنا شروع ہوجاتا اور عوام میں بھی ہا ہا کار نہ مچتی۔ دوائوں سے لے کر پٹرول، چینی، آٹا ہر چیز میں عوام کو بے دریغ لوٹا جارہا ہے لیکن حکومت عوام کو کچھ بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔ شیخ رشید نے کہا مجھے تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 6ارب روپے چاہئیں ورنہ میں ٹرینیں چلانے پر مجبور ہو جائوں گا۔ حکومت نے ایسے وقت میں جب کورونا کا گراف اوپر جارہا ہے 6ارب دینے کے بجائے ٹرینیں چلانے کی اجازت دے دی۔ غریب مرتے ہیں تو مریں کیا فرق پرتا ہے۔