ایس او پی، عوام ہی مجرم کیوں؟

274

تقریباً دو ماہ کے بعد جب لاک ڈائون میں نرمی ہوئی تو یہ بات یقینی تھی کہ ابتدائی چند روز بازاروں اور سڑکوں پر دبائو زیادہ ہوگا اور ایسا ہی ہوا لیکن لاک ڈائون میں نرمی کے حوالے سے حکومت سندھ کا رویہ وفاق سے الگ ہونے کی وجہ سے عوام کھلونا بن گئے ہیں۔ بہت سے لوگ ابھی تک اس ابہام کا شکار ہیں کہ لاک ڈائون کھولا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر وفاق سندھ حکومت اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے عوام کو مجرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ تمام احتیاطی تدابیر پر اسی طرح عمل کر لیں گے جیسے حکومت کی جانب سے بتایا جا رہا ہے۔ اب مزید رش کا سبب جو چیز بنے گی وہ حکومت سندھ کی جانب سے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی سخت بندش ہے۔ تین دن بعد جب لوگ پیر کے روز مارکیٹوں کا رخ کریں گے تو ان کی تعداد لازماً زیادہ ہوگی۔ اگر رمضان اور عید الفطر کے پیش نظر ہفتے کے ساتوں دن بازار نرمی کے اوقات میں کھلے رہیں تو خریداروں کا مجموعی رش تقسیم ہو جائے گا۔ جتنی بندش کریں گے اتنا ہی رش بڑھے گا۔ جہاں تک احتیاطی اقدامات کا تعلق ہے تو ملک کا اعلیٰ ترین طبقہ حکمران اور ارکان اسمبلی بھی ایس او پیز کی پابندی نہیں کر پائے تو پھر عوام سے اس کی توقع کیونکر ہو سکتی ہے۔ تاہم اخبارات کے رپورٹرز کے سروے کے مطابق شہر کی بیشتر مارکیٹوں کے ذمے داران اور دکان والے ایس او پیز کا خیال رکھ رہے ہیں جو اسٹورز دو دن قبل کھولے گئے تھے انہوں نے درجہ حرات چیک کرنے، ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہ جانے دینے اور فاصلہ رکھنے کا اہتمام کرنے کے لیے اضافی عملہ بھی مقرر کیا ہوا ہے۔ تاہم پھر بھی پاکستان کے تعلیمی اور سماجی آگہی کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے عام لوگوں کی جانب سے اس سے زیادہ احتیاط ممکن نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں، خوف پیدا کرکے احتیاطی تدابیر پر عمل کرانے سے مطلوبہ نتائج نہیں آسکتے۔ لاک ڈائون میں نرمی سے قبل بھی بہت سی ایسی مارکیٹیں کھلی تھیں جو آج بھی کھلی ہوئی ہیں۔ میڈیسن مارکیٹ ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوئی اس کی تنگ گلیوں میں ہزاروں افراد صبح سے شام تک خرید وفروخت میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح سبزی منڈی کی بار بار مثال دی جاتی ہے یہ بھی کھلی رہی۔ جبکہ جوڑیا بازار، لیاقت آباد کی ہول سیل مارکیٹ اور ناظم آباد کی ہول سیل مارکیٹ مسلسل کھلی ہوئی ہیں۔ ان مارکیٹوں میں آنے والے اسی طرح ملے جلے ہیں جس طرح آج کل لاک ڈائون میں نرمی کے بعد ہیں، کچھ لوگ ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔ نتائج کے اعتبار سے ان تمام مارکیٹوں میں کام کرنے والوں میں کورونا کے اکا دکا مریض سامنے آئے وہ بھی ٹیسٹنگ کے نتیجے میں مریض قرار دیے گئے۔ یہ لوگ اپنی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے تھے۔ حکومت سندھ بھی اپنی ضد چھوڑے۔ اس کی دیکھا دیکھی وفاقی وزیر اسد عمر بھی دھمکیاں دینے لگے ہیں وہ بھی رویہ بدلیں۔ ایس او پیز پر مکمل عمل ممکن نہیں ہے۔ ساری دُنیا ہزاروں جانیں گنوانے کے باوجود لاک ڈائون نرم کر رہی ہے، سب سے بڑھ کر کہیں بھی حکومتوں اور میڈیا کی جانب سے عوام کو مجرم بنانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ پاکستانی حکمران بھی رویہ بدلیں اور عوام کو مجرم نہ بنائیں۔