بھارت طالبان کی چوکھٹ پر؟

950

افغانستان کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر خطے کا دورہ کرگئے وہ پاکستان، بھارت اور قطر سے ہو کر واپس لوٹ گئے۔ اس بار ان کے دورے کا مقصد عسکری کھٹ پٹ تھی اسی لیے وہ راولپنڈی جی ایچ کیو میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے اور دہلی میں ان کی ملاقات اجیت دووال سے ہوئی۔ اجیت دووال پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام مہمات کے حکمت کار سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کے تمام انٹیلی جنس آپریشنز میں اجیت دووال کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
زلمے خلیل زاد ایک ایسے وقت میں یہاں آئے جب افغانستان میں طالبان اور اشرف غنی حکومت کی فورسز کے مابین جنگ بندی عملی طور پر ناکام ہو چکی ہے اور طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ زلمے خلیل زاد کے دورے کی اصل خبر بھارت میں بریک ہوئی۔ دی ہندو اخبار کی نامہ نگار سہاسنی حیدر نے ان کا خصوصی انٹرویو کیا۔ ایک ماہر صحافی کے طور سہاسنی حیدر نے زلمے خلیل زاد کے دورے کے اصل مقاصد کو کریدنے کی کوشش کی اور آخر کار وہ خبر حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ سہاسنی حیدر کے ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہونا چاہیے اور افغانستان میں امن کا قیام جنگ زدہ ملک کے ساتھ ساتھ خطے کے تمام ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوگی نہ یہاں القاعدہ جیسے گروپوں کو دوبارہ پنپنے اور مجتمع ہونے کا موقع ملے گا۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں تعمیر نو کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے مگر وہ امن عمل سے الگ تھلگ ہے اس کا حل یہی ہے کہ وہ طالبان سے براہ راست بات چیت کرے۔
زلمے خلیل زاد کے اس موقف نے طالبان کی بڑھتی ہوئی اہمیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ گویا کہ طالبان ایک عسکری ملیشیا نہیں بلکہ ملکوں سے معاملات طے کرنے والی قوت ہے۔ جو پاکستانی طالبان کو ابھی تک سترہ برس پہلے کی طرح ایک پروجیکٹ سمجھتے ہیں اس میں ان کے لیے بہت سبق پوشیدہ ہیں۔ امریکا نہ صرف یہ کہ سترہ برس کی جنگ کے بعد طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور پر ہوچکا ہے بلکہ وہ بھارت سے بھی اسی رویے اور کردارکا مطالبہ کرنے لگا ہے۔ بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا مشورہ اس بات کا غماض ہے کہ امریکا کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ جب تک بھارت افغان حکمرانوں کے پیچھے چھپ کر اس زمین کو معاملات بگاڑنے کے لیے استعمال کرے گا امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ عملی نتائج نہیں دے سکتا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان اگر جنگ بندی کامیاب بھی ہوتی ہے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ جاری رہے گی اور اس سے حقیقی اور پائیدار امن کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ بھارت کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات ایک کڑوا گھونٹ ہے۔ بھارت طالبان کو دہشت گردکہتا رہا ہے اور طالبان کے ساتھ اس کی بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ بھارتی طیارے کا اغوا کرکے قندھار اُتارا جانا اور پھر اغوا کاروں کے مطالبات کے جواب میں تین اسیر حریت پسندوں کو بھارتی جیلوں سے رہا کرجسونت سنگھ کا خصوصی جہاز میں قندھار پہچانا بھارتیوں کی روح کو لگنے والا گھائو ہے جو اب تک بھرنے نہیں پایا۔ امریکا اور طالبان بھی دوبدو لڑائی کرتے کرتے آخر کار براہ راست مذاکرت اور ایک تحریری معاہدے تک پہنچ گئے۔ اس لیے بھارت کا کسی وقت طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھنا ناممکن نہیں کیونکہ طالبان بھی اب اپنی حیثیت کو ملیشیا کے بجائے امارت اسلامی کے طور پر وسعت دینا اور منوانا چاہتے ہیں۔
بھارت کا مخمصہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں اس سوال کا زیادہ شد ومد کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا کہ افغانستان میں ایک عسکری طاقت کے ساتھ بات چیت کرنے والا بھارت کشمیر میں عسکری قوتوں کے ساتھ بات چیت سے گریزاں کیوں ہے؟۔ ایسے میں جب کہ اس بات چیت کا خود اسے براہ راست فائدہ بھی حاصل ہوگا کیونکہ بات چیت شروع ہونے سے پاکستان کے ساتھ بھارت کے منجمد تعلقات بحال ہونے میں مدد لیے گی اور اسے افغانستان اور آگے تک آسان تجارتی حاصل ہو گی۔ گزشتہ برس جب طالبان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی باتیں چلی تھیں تو کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی یہی سوال اُٹھایا تھا کہ طالبان کو دہشت گرد کہنے والا بھارت اگر ان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیوں کیا جا رہا ہے؟۔ طالبان سے مذاکرات کا یہ معاملہ بھارت کی انانیت اور تکبر کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ بھارت کو یہ خوف ہے کہ اس طرح کشمیر پر اس کا موقف کمزور ہوگا۔ افغانستان کی سترہ سالہ جنگ میں بھارت امریکا کا شہ بالا بنا ہوا تھا اور اب یہ ممکن نہیں کہ امریکا خود تو طالبان سے مذاکرات کرے مگر شہ بالے کو ان سے محاذ آرائی کی کیفیت میں چھوڑ جائے۔ ساتھ ہی بھارت میں ہمیشہ سے خوف موجود رہا ہے کہ طالبان افغانستان سے فارغ ہوئے تو اس مزاحمت کا کچھ حصہ کشمیر کا رخ کرسکتا ہے۔ یہ نوے کی دہائی کے اوائل میں بھی ہو چکا ہے۔ اس لیے وہ طالبان کو افغان جنگ میں ہی اُلجھائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے افغان حکومت کی پیٹھ تھپتھپانے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ امریکا نے بھی یہ جان لیا ہے کہ بھارت طالبان کے خلاف چھپ کر وار کرنے کی راہ پر گامزن رہ کر جنگ زدہ افغانستان کو امن کی منزل سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان امریکا مذاکرات سے بڑا واقعہ طالبان بھارت بات چیت ہو سکتا ہے۔ بھارت نے سترہ برس تک پوری قوت کے ساتھ طالبان کو ناکام بنانے کی کوششیں کیں مگر امریکا کی طرح بھارت کو ناکامی ہوئی اور اب حالات اسے طالبان کے در پر لے جا تے ہیں تو یہ انا اور تکبر کی شکست ہوگی۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ بھارت کو کشمیری عوام کی مزاحمت کے آگے اسی طرح سپر ڈالنا پڑے گی اور وہ جنہیں آج دہشت گرد قرار دے رہا ہے ان کے ساتھ معاہدات اور مذاکرات کر رہا ہوگا۔