کراچی(رپورٹ: منیرعقیل انصاری)شہر میں تجارتی سرگرمیوں کی بحالی ہوچکی ہےتاہم پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش سے غریب شہریوں کو بڑی مارکیٹوں تک پہچنے میںشدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شہری بالخصوص خواتین ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں عید الفطر کی خریداری کے لیے صدر، طار ق روڈ،حیدری،جامع کلاتھ،لیاقت آباد و دیگر مارکیٹوں کا دور ہ کرتی ہیں اور مناسب قیمتوں پر اپنی فیملی کے لیے خریداری کرتی ہیں۔
لیکن اس بار پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی کی وجہ سے مارکیٹوں کی رونقیں بھی بحال نہیں ہورہی ہیں اور شہری بھی عید کی خریداری سے محروم ہیں۔
ان بازاروں میں صرف وہی شہری آرہے ہیں جن کے پاس اپنے گاڑیاں یا موٹرسائیکلیں ہیں یا وہ مہنگے داموں سی این جی رکشوں کے کرایہ برداشت کرسکتے ہیں۔
ٹرانسپورٹرز نے گزشتہ دنوں وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ سےایک ملاقات میں پبلک ٹرانسپورٹ پر عائد پابندی اٹھانے کی درخواست کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے تمام ایس او پیز پر عملدرآمد کریں گے لیکن وزیر ٹرانسپورٹ نے پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی سے انکار کردیا تھا۔
ایک سروے کے مطابق شہر کے چند چھوٹے بڑے روٹس پر غیرقانونی چنگچی رکشہ سروس بحال ہوچکی ہے جبکہ دیگر سی این جی رکشہ اور ٹو اسٹروک رکشہ کئی دنوں سے شہر میں چلائے جارہے ہیں۔
سی این جی رکشہ اور ٹو اسٹروک رکشہ ایک فیملی کو بیٹھا کر سفری سہولیات پہنچا رہے ہیں تاہم ان کے کرایئے آسمان سے باتیں کررہے ہیں، جبکہ چنگچی رکشہ بطور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہورہے ہیں تاہم ان کے کرایئے ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔
چنگچی رکشہ ہوں یا دیگر سی این جی رکشہ سماجی فاصلے کا کوئی خیال رکھ رہا ہے۔ دونوں ٹرانسپورٹ سروسز میں مسافر ایک دوسرے کے ساتھ ملکر بیٹھ ر رہے ہیں۔
چنگچی رکشہ سروس سندھ حکومت کے طے کردہ ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹریفک پولیس اور سٹی پولیس کے سامنے سے گزرتی ہیں تاہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔
لاک ڈاون سے قبل گلشن اقبال اون ہائیٹس تا گلشن چورنگی 20روپے کرایہ وصول کیا جاتا تھا لیکن اب 30روپے کرایہ وصول کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ماہ قبل ایک آن لائن نجی ٹرانسپورٹ کمپنی نے بھی سندھ حکومت کو آفر کی تھی کہ سندھ حکومت پبلک ٹرانسپورٹ آپریٹ کرنے کی اجازت دیدے تو کمپنی ایک سیٹ پر ایک مسافر کو بیٹھانے گی تاہم سندھ حکومت نے نجی کمپنی کی درخواست قبول نہیں کی۔
کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدرسید ارشاد حسین شاہ بخاری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں چنگچی رکشہ سروس کی بحالی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بھی غریب لوگ ہیں جو اپنے خاندانوں کو فاقوں سے بچانے کے لیے محنت مزدوری کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ چنگچی رکشہ کی بحالی خوش آئند ہے تاہم حکومت کو چاہیے کہ پبلک ٹرانسپورٹرز کو بھی اپنا کاروبار چلانے کی اجازت دیدے کیونکہ یہ بھی انسان ہیں اور ان کے گھروں میں بھی اب فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔
ارشاد بخاری نے کہا کہ ٹرانسپورٹ برادری کے ساتھ وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ اور وزیر تعلیم سعید غنی کے دو اجلاس منعقد کیے جس میں ایس او پیز طے کرنے کے باوجود منع کردیا گیا اور پھر اب یہ کہا جارہا ہے کہ لاک ڈاون 31 مئی تک بڑھا دیا گیا ہے اور تب تک پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
یہ اعلان کراچی سمیت سندھ کے فاقوں کے شکار لاکھوں ٹرانسپورٹروں اور ٹرانسپورٹ ورکروں کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے۔
ارشاد بخاری نے مزید کہا کہ میں تقریبا ڈیڑھ ماہ سے وزیراعلی سندھ اور ان کے وزراء کے سامنے اپیلیں کر کر کے تھک چکا ہوں۔
میں نے شروع سے وزیراعلی سندھ اور وزراء سے اپیل کی تھی کہ اگر ہمارا ٹرانسپورٹ چلانا کورونا وائرس کے حوالے سے مضر ہے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ جتنا عرصہ کہیں گے آپ کے حکم پر کھڑے رہیں گے۔
لیکن ہمارے غریب ٹرانسپورٹروں اور غریب ٹرانسپورٹ ورکروں کے لیے فوری طور پر امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے لیکن ہماری اپیل کو سنی ان سنی کردیا گیا۔
وزیر اعلی سندھ بتائیں کہ اگر وہ ہمیں گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں دیتے تو ہم اپنے بال بچوں کے لئے روزی کہاں تلاش کریں ارشاد بخاری نے وزیراعلی سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ خدار ٹرانسپورٹ برادری پہ رحم کریں اور ہمیں گاڑیاں چلانے کا فوری حکم صادر فرمائیں۔