حکومت اور اعتبار!!!

300

پاکستان میں سرکاری سطح پر کورونا کے پھیلائو میں مریضوں کی تعداد اور اموات کے علاوہ ٹیسٹنگ کے بارے میں شبہات کا اظہار تو کیا جا رہا تھا لیکن اس پر حکومت کی خاموشی معنی خیز تھی کہ اب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بھی کورونا ٹیسٹ اور اموات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنا اعتبار کھو رہی ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ مختلف لیبارٹریز کی رپورٹس میں بھی تضادات سامنے آرہے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس صحت کا کوئی موثر نظام نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کے شکوک و شبہات کو دور کیا جائے اور ڈاکٹروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ حافظ نعیم نے کورونا سے مرنے والوں کی میتوں کی تدفین کے طریقۂ کار کو بھی غیر منطقی قرار دیا اور میتوں کو حوالے کرنے میں پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب تک سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان کورونا کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جارہی تھی لیکن حافظ نعیم الرحمن ان دونوں سے مختلف ہیں اور ان کی پوزیشن بھی ان کے مقابلے میں بہتر ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں حکومتوں میں ہیں۔ جوں ہی کورونا کی وبا پھیلی ان حکومتوں کو حرکت میں آجانا چاہیے تھا جبکہ بلدیاتی نظام ابھی موجود ہے کونسلرز اور میئر بھی موجود ہیں انہیں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن لوگوں نے تین رویے دیکھے۔ وفاق اور سندھ کی لڑائی، سندھ کی جانب سے عوام پر صرف پابندیاں ان کو مجرم ثابت کرنے پر سارا زور صرف کرنا اور بلدیات کا فنڈز کی قلت کا رونا۔ تقریباً دو ماہ کے لاک ڈائون اور اس سے پہلے کے عرصے میں اگر پاکستان میں کسی نے سنجیدگی سے کام کیا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی نے نہایت سمجھداری سے پہلے عوام میں آگہی پیدا کی، ماسک اور سینیٹائزر تقسیم کیے پھر مختلف علاقوں اسپتالوں، عبادت گاہوں، سڑکوں، فلیٹوں ہر جگہ پر جراثیم کش اسپرے کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فرنٹ لائن پر موجود ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے ان کو حفاظتی کٹس کی فراہمی کا کام کیا۔ یہ کام صرف کراچی میں نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں صرف جماعت اسلامی کا نظام منظم اور ترتیب کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ جہاں جس چیز کی ضرورت تھی وہاں وہی پہنچائی گئی۔ غرض ہر وہ کام جو وفاقی اور صوبائی حکومت اور بلدیات کا تھا وہ جماعت اسلامی اور الخدمت نے کیا۔ اگر اس کے بعد حافظ نعیم الرحمن کورونا ٹیست اور اموات کے بارے میں رائے دے رہے ہیں تو یہ کسی بھی حکومتی ترجمان، کسی وزیر یا کسی مبصر سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جماعت اسلامی اور الخدمت نے پورے ملک میں اس بحرانی کیفیت کے دوران ہر شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت کا شاہکار کام کیا۔ جبکہ حکومتوں کا کام ڈاکٹروں کو تحفظ دینا اسپتالوں کو آلات فراہم کرنا، صفائی ستھرائی کرنا تھا لیکن حکمرانی کے تینوں طبق وفاق، صوبہ اور بلدیات نہ صرف ناکام رہے بلکہ عفو معطل اور ایک دوسرے سے سیاسی جنگ کرتے رہے۔ اب حکومت سندھ کو حافظ نعیم کے سوالات کے جوابات بھی دینے ہیں اور عوام کی پریشانی کو دور بھی کرنا ہے۔ ویسے کسی حکومتی شعبے کی کوئی ساکھ اور ان کا کوئی اعتبار تو تھا ہی نہیں وہ کیا کھوئیں گے۔ دیکھا تو یہ گیا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور مرض کے بارے میں خوف پھیلا کر فنڈز کا بے تحاشا استعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے اسپتالوں کو کورونا ریلیف کے نام پر بڑی بڑی رقوم دے دی گئیں۔ ابھی کراچی میں حالات ایسے بھی نہیں کہ کسی اسپتال میں بستر یا وینٹی لیٹر کم پڑ جائیں، کہ ایک ارب 80 کروڑ روپے سے ایک اور اسپتال کے قیام کا اعلان اور رقم بھی جاری کر دی گئی۔