بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک تازہ مگر سخت بیان میں خطے کے پانچ ممالک یونان، قبرص، مصر، متحدہ عرب امارات اور لیبیا کے ایک حالیہ معاہدے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پانچوں ممالک مشرقی بحیرہ روم میں علاقائی انتشار اور عدم استحکام کی راہ پر گامزن ہیں اور یہ ممالک لیبیا کے عوام کی امنگوں کے ترجمان ایک جمہوری حکومت کے بجائے طاقت کے ذریعے مسلط آمرانہ قوتوں کی پشتیبانی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ان متذکرہ پانچ ممالک کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز مشرقی بحیرہ روم کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک مشترکہ ٹیلی مواصلات کانفرنس میں شرکت کی ہے جس پر ترکی جو شام کے علاوہ کردوں کی عرصہ دراز سے جاری تحریک مزاحمت کی وجہ سے پہلے ہی دبائو کا شکار ہے کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ دراصل ان پانچ ممالک کی جانب سے یہ باہمی معاہدہ ایک ایسے خطے کی بگڑتی صورتحال کے موقع پر سامنے آیا ہے جہاں ترکی پچھلے کچھ عرصے سے ایک ایسے ساحل سمندر میں ممکنہ ہائیڈرو کاربن کے ذخائر کی کھدائی کررہا ہے جہاں قبرص کونہ صرف خصوصی معاشی حقوق حاصل ہیں بلکہ قبرص کے اس دعوے کو یونان سمیت خطے کے بعض دیگر ممالک کی بھی کہیں خفیہ اور کہیں اعلانیہ حمایت بھی حاصل ہے۔ اسی طرح لیبیا کی صورتحال نے بھی پورے خطے کو متاثر کررکھا ہے جہاں اقتدار کے حصول اور ٹریپولی پر قبضے کے لیے متحارب گروپوں میں طویل عرصے سے خانہ جنگی جاری ہے جس کا آغاز اپریل 2011 میں عرب بہار کے موقع پر ہوا تھا جس کے نتیجے میں بعد ازاں اگست 2011 میں دارالحکومت ٹریپولی پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور لیبیا پر 42سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے آمر معمر قذافی کو یہاں سے بھاگ کر ٹریپولی اور بن غازی کے درمیان واقع اپنے آبائی شہر سرت میں پناہ لینی پڑی تھی جسے قذافی نے بعد ازاں یکم ستمبر اپنے انقلاب کی سالگرہ کے دن لیبیا کا نیا دارالحکومت بھی ڈکلیئر کیا تھا لیکن اسی سال اکتوبر میں ناٹو بمباری کے نتیجے میں جب معمر قذافی کو یہاں سے بھی پسپا ہوکر نکلنا پڑا تھا تو اس طرح نہ صرف قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا بلکہ ان کو مقامی باغیوں نے گرفتار کر کے موت کی گھاٹ بھی اُتار دیا تھا جس کے بعد سارے لیبیا میں اقتدار کے حصول کی ایک ایسی مسلح کشمکش شروع ہوگئی تھی جس کا تاحال خاتمہ نہیں ہوسکا ہے اور اس وقت بھی لیبیا دو بڑے اور واضح حریف گروپوں کے علاوہ تین چار مزید چھوٹے موٹے گروپوں میں بٹا ہو اہے جن میں ایک دھڑا 2014 میں جمہوری طریقے سے منتخب ہوا تھا اور اسے بین الاقوامی سطح پر لیبیا کی حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جسے تبوک حکومت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جب کہ دوسرا بڑا گروپ جنرل نیشنل کانگریس کا اسلام پسند دھڑا ہے جو دارالحکومت طرابلس پر قابض ہے اور اسے قومی نجات کی حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ دسمبر 2015 میں ان دونوں دھڑوں نے حکومت قومی معاہدے کے طور پر متحد ہونے کے لیے اصولی طور پر اتفاق کیا تھا لیکن اس کی اتھارٹی چونکہ ابھی تک واضح نہیں ہے اس لیے یہ دونوں گروپ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ تبوک حکومت کو مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے جب کہ مغربی لیبیا میں قائم جنرل نیشنل کانگریس حکومت اخوان المسلمین کی قیادت میں کام کر رہی ہے اور اسے قطر، سوڈان اور ترکی کا تعاون حاصل ہے اور پچھلے سال ترکی نے اسے بین الاقوامی منظور شدہ حکومت تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ فوجی تعاون کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ بحیرہ روم اور اس کے ایک بڑے حصے کو اپنے معاشی حقوق دیتا ہے۔ دوسری جانب یونان اور قبرص نے اس معاہدے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ترکی نسلی اعتبار سے تقسیم شدہ قبرص کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے بہت سے خصوصی اقتصادی زونز پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ ترکی کے خطے میں اس بڑھتے ہوئے کردار ہی کی وجہ سے ان پانچ ملکوں کو نہ صرف پریشانی لاحق ہے بلکہ وہ ترکی کی جانب سے لیبیا ساتھ طے شدہ معاہدے پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔ ان پانچ ممالک نے اعلان کیا ہے کہ افریقا کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی لیبیا کے ہمسایہ ممالک کے استحکام کے لیے یہ پیش رفت خطرہ ہے اور اس کا بین الاقوامی سطح پر نوٹس لیاجانا چاہیے جس کے جواب میں اب ترک وزارت خارجہ نے یونان اور قبرص پر ترکی کے ساتھ بات چیت سے گریز کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور اپنے ہی عوام کے حقوق اور مفادات کا تحفظ نہ کرنے پر مصر کو بھی قصوروار قرار دیا ہے جب کہ اس نے متحدہ عرب امارات پر بھی ترکی کے خلاف دشمنی کے سبب دوسروں کا آلہ کار بننے کا الزام عائد کیا ہے۔ ترکی نے اس خطے میں کافی اثر رسوخ رکھنے والے فرانس پر بھی الزام لگایا ہے کہ وہ اس پانچ رکنی اتحاد کے سرپرست کی حیثیت سے ترکی کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور استحکام برائی کے اتحاد سے نہیں بلکہ خلوص اور حقیقی بات چیت کے ذریعے قائم کیا جاسکتا ہے لہٰذا توقع ہے کہ ترکی کے اس مثبت موقف کے بعد یہ ممالک بھی مثبت طرز عمل اپناتے ہوئے ترکی کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ کی اس نئی محاذ آرائی کا کوئی خاطر خواہ حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔