کورونا اور عید

518

لیجیے صاحب 9 مئی سے چند شرائط کے ساتھ ملک میں لاک ڈائون ختم کردیا گیا ہے البتہ عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ازخود احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کورونا کو قریب نہ آنے دیں۔ یہ فیصلہ وفاقی کابینہ نے وزیراعظم عمران خان کے اصرار پر کیا ہے، اگرچہ بعض وفاقی وزرا اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے ان کا موقف تھا کہ لاک ڈائون کی پابندیاں ختم کرنے سے کورونا کے پھیلائو کو روکنا دشوار ہوجائے گا اور ہم مشکل میں پڑ جائیں گے لیکن وزیراعظم کو دہاڑی دار مزدوروں، چھوٹے دکانداروں، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہنر مندوں اور کاروباری طبقے کی فکر کھائے جارہی تھی کہ اگر انہیں روزگار نہ ملا تو وہ بھوکوں مرجائیں گے اور یہ ہلاکتیں کورونا سے مرنے والوں سے زیادہ ہوں گی۔ وزیراعظم کے اس موقف میں بڑا وزن تھا۔ چناں چہ اسے پزیرائی حاصل ہوئی اور لاک ڈائون کو رخصت کردیا گیا۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ لاک ڈائون تھا ہی کب؟ اس کا ملک کے چند بڑے شہروں میں چرچا تھا، اِن شہروں میں بھی لاک ڈائون کی جو صورتِ حال تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہ تھی جب کہ ملک کے دور دراز دیہی اور میدانی و پہاڑی علاقوں میں زندگی حسبِ معمول رواں دواں تھی، لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ لاک ڈائون کیا ہوتا ہے اور کورونا کس بلا کا نام ہے۔ وہ اپنے معمولات میں مگن تھے، اب لاک ڈائون ہٹا ہے تو اس کا چرچا بھی شہروں تک محدود ہے۔ رہا ازخود احتیاطی تدابیر کا معاملہ تو ہم نادرا کے دفاتر کے باہر لگی قطاروں سے بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ آپ بینکوں میں جائیں، آپ یوٹیلیٹی اسٹورز پر جائیں، یہاں تک کہ آپ سبزی لینے کے لیے بازار میں قدم رکھیں تو دوسرا آدمی مونڈھا مار کر آپ کے قریب سے گزرے گا۔ یہ سب کچھ ارادتاً نہیں ہورہا بلکہ لاک ڈائون کی پابندیاں نرم پڑتے ہی لوگ گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئے ہیں اور آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے فضائی آلودگی بھی نہیں ہے، رمضان کا دوسرا عشرہ ختم ہورہا ہے، ہر گھر میں بچوں کے عید کے کپڑوں کا مسئلہ ہے، بڑے تو پرانے کپڑوں میں گزارا کرلیں گے، بچوں کو نئے جوڑے چاہئیں، اب ریڈی میڈ جوڑوں کا رواج ہے۔ چناں چہ رمضان کے آخری عشرے میں بازاروں میں رش بڑھ جائے گا۔ زیادہ تر لوگ چہرے پر ماسک لگانے کا بھی تکلف بھی نہیں کرتے، دستانے پہننا تو دور کی بات ہے۔ شاعر نے پتا نہیں کس شہر کے بارے میں یہ کہا ہے:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
دستانے صرف اسپتالوں میں نظر آتے ہیں جہاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنے فرائض منصبی کے دوران پہنتے ہیں اور کام سے فارغ ہوتے ہی اُتار دیتے ہیں۔ رہا دو افراد کے درمیان فاصلے کا معاملہ تو اب موجودہ حالات میں یہ ممکن ہی نہیں رہا۔ لوگوں کا ہجوم ہے جو آپ کو گھر سے نکلتے ہی ہر طرف نظر آرہا ہے اور آپ خود بھی اسی ہجوم کا حصہ ہیں۔ ایسے میں کل ایک خبر نظر سے گزری کہ سندھ حکومت نے عید کے موقع پر لوگوں کے گلے ملنے پر پابندی لگادی ہے۔ پڑھ کر ہنسی آئی بھلا حکومت کے پابندی لگانے سے لوگ گلے ملنے سے باز آجائیں گے۔ شاعر نے تو بڑے اصرار سے کہا ہے:
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
عید کے دن گلے ملنا تو ہماری صدیوں پرانی تہذیب کا حصہ ہے، ہم اسے کیسے ترک کرسکتے ہیں۔ گلے ملنے کا آغاز تو عیدگاہ ہی سے ہوجاتا ہے۔ ہاں یاد آیا اب شہروں میں عیدگاہیں بھی کہاں رہ گئی ہیں، نماز عید اب مسجدوں ہی میں ادا ہوتی ہے، اب کی دفعہ تو کہا جارہا ہے کہ نماز عید بھی گھروں پر ادا کی جائے کہ مسجدوں میں جانے سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن شاید لوگ اس پر آمادہ نہ ہوں۔ وہ مسجدوں کا رُخ ضرور کریں گے اور ساری تدابیر دھری رہ جائیں گی۔ لوگ گلے بھی ملیں گے کہ گلے ملے بغیر عید کی مبارکباد نہیں دی جاسکتی۔ مانا کہ عید بہت سے اندیشوں کے درمیان آرہی ہے لیکن آپ بچوں کو عید کی خوشیاں منانے سے نہیں روک سکتے۔
کچھ لوگوں نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ کورونا عید سے پہلے رخصت ہوجائے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ کورونا نے ہم کمزور ایمان والوں کا بہت امتحان لے لیا۔ اب ہمارے اندر مزید اس امتحان سے گزرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ان کی استطاعت سے بڑھ کر متحان میں نہیں ڈالتا۔ اس لیے اللہ کی ذات سے پوری اُمید ہے کہ وہ ہمیں مزید نہیں آزمائے گا اور ہم بے خوف و خطر عید کے دن ایک دوسرے سے گلے مل سکیں گے کہ
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پھر ان حکومتوں کا کیا بنے گا کہ کورونا کے سہارے چل رہی ہیں۔ جن کی نااہلیت کورونا کی آڑ میں چھپ گئی ہے اور جو ہر قسم کی اپوزیشن سے بے خوف ہو کر من مانی کررہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنے دوست کی اس فکر مندی کا ازالہ نہیں کرسکتے، البتہ غالبؔ کی زبان میں ضرور کہہ سکتے ہیں کہ
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا