سندھ کا ہیرو کون؟ محمد بن قاسم یا راجا داہر؟

1121

اسلام دشمن طاقتوں کا وتیرہ ہے کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے ’’مسلّمات‘‘ کو بدلنے کی سازش کرتی ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے سندھ محمد بن قاسم کی وجہ سے باب الاسلام کہلاتا ہے اور محمد بن قاسم ہی سندھ کا اصل ہیرو ہے مگر چند روز پیش تر ٹوئٹر پر راجا داہر کو سندھ کا ہیرو اور محمد بن قاسم کو سندھ کا ولن باور کرانے کی مہم چلائی گئی۔ اس مہم میں بی بی سی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ بی بی سی کی ویب سائٹس پر اس حوالے سے جو مواد ڈالا گیا اس میں راجا داہر کو ’’سندھ کا بیٹا‘‘ یا son of the soil قرار دیا گیا۔ راجا داہر کو سندھ کی خود مختاری کی علامت باور کرایا گیا۔ راجا داہر کو اعلیٰ کردار کا حامل قرار دیا گیا۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر موجود مواد کے مطابق راجا داہر نے سندھ کی خود مختاری کے دفاع کی جنگ لڑی۔ راجا داہر ’’شہید‘‘ ہے۔ اس کے برعکس محمد بن قاسم عرب جارحیت اور ’’عرب استعمار‘‘ کی علامت تھے۔ محمد بن قاسم کو پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔ فوجی آمر جنرل ضیا نے نصاب میں تبدیلی کرکے محمد بن قاسم کو ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ بی بی سی اس سلسلے میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر منان احمد آصف سے رابطہ کر ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں جماعت اسلامی محمد بن قاسم کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ جی ایم سید نے راجا داہر کو سندھ کے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ رفیق وسان کے مطابق جی ایم سید سمجھتے تھے کہ عربوں کا سندھ آنا اسلام پھیلانے کے لیے نہیں تھا بلکہ عرب ایک سامراجی قوت کے طور پر یہاں آئے تھے۔ راجا داہر کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے والوں نے کہا کہ جب پنجاب میں رنجیت سندھ کا مجسمہ ایستادہ کیا جاسکتا ہے تو سندھ میں راجا داہر کا مجسمہ کیوں نصب نہیں ہوسکتا؟۔
انسان اس طرح کی باتیں سنتا اور پڑھتا ہے تو اس بات پر حیران رہ جاتا ہے کہ لوگ کس طرح عوام کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چلیے پہلے راجا داہر کے ’’کردار‘‘ پر بات ہوجائے۔ چچ نامہ سندھ کی تاریخ کے حوالے سے ایک قدیم، معتبر اور اہم دستاویز ہے۔ اس دستاویز میں لکھا ہے کہ راجا داہر نے اپنی بہن سے شادی کی ہوئی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اپنی بہن سے شادی کرنے والے کو سندھ کا ’’ہیرو‘‘ قرار دے۔ چچ نامے کے مطابق راجا داہر نے اپنی بہن سے شادی بھی ایک ستارہ شناس یا نجومی کے کہنے پر کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا داہر کا مذہب ’’ہندوازم‘‘ نہیں تھا بلکہ ’’علم نجوم‘‘ تھا۔ لیجیے ثابت ہوگیا کہ راجا داہر تو ہندو بھی نہیں تھا۔ چچ نامہ بتاتا ہے کہ راجا داہر اپنے والد کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس اعتبار سے وہ راجا بننے کا بھی اہل نہیں تھا۔ راجا اس کے بڑے بھائی کو ہونا چاہیے تھا مگر راج نجومی ’’بدھی مان‘‘ نے راجا داہر کو پٹی پڑھائی کہ راجا تمہیں ہونا چاہیے۔ چناں چہ راجا داہر نے بادشاہت ہتھیا لی۔ راجا داہر اس حد تک نجومی بدھی مان کے زیر اثر تھا کہ اس کے مشورے پر اس نے ایک مرحلے پر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سفر کرنے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ اس کے بڑے بھائی کا انتقال ہوا تو نجومی نے کہا کہ تمہیں اپنے بھائی کے کریا کرم میں شرکت کے لیے نہیں جانا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا بھائی مرا نہ ہو اور وہ تمہیں سازش کے تحت اپنے یہاں آنے پر مجبور کررہا ہو۔ یہ راجا داہر کے ’’کردار‘‘ کی چند جھلکیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا شخص سندھ کا ہیرو ہوسکتا ہے؟۔
اب بات ہوگی یہ کہ محمد بن قاسم حملہ آور یا مداخلت کار تھا اور راجا داہر دھرتی کا بیٹا یا son of the soil تھا۔ چچ نامہ بتاتا ہے کہ راجا داہر برہمن تھا اور برہمن آریائی نسل ہے اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ آریہ وسطی ایشیا سے آئے تھے اور انہوں نے آکر دراوڑوں کے ہندوستان پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح سفید فاموں نے ریڈ انڈینز کے امریکا پر قبضہ کیا تھا۔ ہندوستان کے اصل باشندے آریہ نہیں دراوڑ تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صورتِ حال یہ بنی کہ محمد بن قاسم بھی مخصوص معنوں میں ’’دھرتی کے بیٹے‘‘ نہیں تھے اور راجا داہر بھی ’’دھرتی کا بیٹا‘‘ نہیں تھا۔ محمد بن قاسم بھی مداخلت کار تھے اور راجا داہر بھی مداخلت کاروں کی اولاد تھا۔ اس اعتبار سے محمد بن قاسم اور راجا داہر میں صرف یہ فرق ہے کہ راجا داہر پرانا مداخلت کار ہے اور محمد بن قاسم نئے مداخلت کار ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ راجا داہر کے پرستاروں کو راجا داہر کے بزرگوں کا ہندو سندھ پر قبضہ تو قبضہ نظر نہیں آتا مگر محمد بن قاسم کی بے مثال فتح ’’قبضہ‘‘ نظر آتی ہے۔ راجا داہر کو ’’شہید‘‘ بھی قرار کردیا گیا ہے۔ یہ جہالت کی انتہا ہے۔ اس لیے کہ ہندو ازم میں شہادت کا تصور زندگی اور موت یہ ہے کہ انسان مرجاتا ہے اور پھر دوبارہ کسی اور شکل میں پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان کی نئی زندگی کا تعین اس کی پرانی زندگی کے اعمال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ انسان نے پرانی زندگی میں اچھے اعتمال کیے ہوتے ہیں تو انسان نئی زندگی میں بہتر روپ میں پیدا ہوتا ہے لیکن اگر اس نے پرانی زندگی میں گناہ کیے ہوتے ہیں تو وہ نئی زندگی میں گائے، بیل، بھینس، کتا یا بلی بن کر بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہندو ازم میں شہادت کا تصور موجود ہی نہیں ہوسکتا۔ ہندو ’’شہید‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو مسلمانوں کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے زیر اثر ایسا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ بیچارہ راجا داہر صرف ’’ہلاک‘‘ ہوا تھا ’’شہید‘‘ نہیں ہوا تھا۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کے دائرے میں انسان کا اصل تشخص نہ نسل ہے، نہ زبان ہے، نہ دھرتی ہے، انسان کا اصل تشخص صرف لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے۔ اس کا شعور بندگی ہے۔ سیدنا نوحؑ کا نافرمان بیٹا انہی کی اولاد تھا مگر اللہ نے سیدنا نوحؑ سے صاف کہا کہ یہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ غزوہ بدر کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کے بیٹے نے جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے کہا کہ آپ جنگ کے دورن کئی بار میری تلوار کی زد میں آئے مگر میں نے والد سمجھ کر آپ کو چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا اگر تم میری تلوار کی زد میں آتے تو میں تمہیں ہرگز نہ چھوڑتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو محمد بن قاسم ’’دھرتی کا بیٹا‘‘ تو نہیں تھا مگر وہ ’’اللہ کا بندہ‘‘ ضرور تھ۔ وہ اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا تھا اور یہ بات دھرتی کا بیٹا ہونے سے کھربوں گنا زیادہ اہم ہے۔ مگر بعض کم فہم ابھی تک زبان، نسل اور زمین کے تشخص کو لیے بیٹھے ہیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے اسلام کا تشخص کم پڑتا ہے اور جنہیں گمراہی اپنا تشخص لگتی ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ محمد بن قاسم اپنے ساتھ اسلام کی ایسی دولت اور ایسی نعمت لے کر آئے کہ جس کے آگے پوری دنیا کی دولت اور حکمرانی ہیچ ہے۔ محمد بن قاسم وہ اسلام لائے جس نے سندھ کے لوگوں کو کافر اور مشرک سے ’’مسلمان‘‘ اور ’’مومن‘‘ بنا دیا۔ پہلے وہ دوزخ کے مستحق تھے۔ محمد بن قاسم کے آنے سے انہیں ایسی دولت نصیب ہوئی جس نے انہیں ’’جنتی‘‘ بنادیا۔ محمد بن قاسم کی آمد سے قبل سندھ کے لوگوں کی اللہ کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی مگر انہوں نے اسلام قبول کیا تو وہ اللہ کے قریب ہوگئے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ زمین، قبیلے، انفرادی و اجتماعی انا کے لیے جان دینے والوں کی اللہ کے نزدیک کوئی اوقات ہی نہیں۔ جان تو وہی قیمتی ہے جو اللہ کی راہ میں دی جائے اور محمد بن قاسم اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیے نکلا تھا جب کہ راجا داہر نے اپنی زمین کے لیے جان دی۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم مظلوم مسلمان اور خواتین کی آواز بن کر ان کی داد رسی کے لیے سندھ آیا تھا۔
محمد بن قاسم کو عرب سامراجیت کی علامت قرار دینا انتہائی درجے کی بددیانتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے اسلام پھیلا عرب سامراجیت نہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے سندھ سمیت پورے پاکستان میں ’’امریکی سامراجیت‘‘ پھیلی ہوئی ہے۔ ’’مغربی سامراجیت‘‘ پھیلی ہوئی ہے مگر راجا داہر کے پرستاروں کو یہ سامراجیت نظر تک نہیں آتی لیکن وہ عرب سامراجیت جو کہیں موجود ہی نہیں تھی وہ انہیں خوب نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ کتنے بددیانت ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
راجا دائر کے پرستار اسے ’’بہادر‘‘ باور کراتے رہتے ہیں مگر راجا داہر کی بہادری اس امر سے ظاہر ہے کہ محمدبن قاسم نے راجا داہر کے ایک لاکھ کے لشکر کو صرف 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے شکست دی۔ سندھ میں محمد بن قاسم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب محمد بن قاسم واپس لوٹا تو مقامی لوگوں نے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر محمد بن قاسم کے مجسمے بنائے۔
جماعت اسلامی پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ محمد بن قاسم کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے حالاں کہ ہمیں جماعت اسلامی سے شکایت یہ ہے کہ وہ دیہی سندھ میں محمد بن قاسم اور اس حوالے سے اسلام کی نعمت کا اتنا ذکر نہیں کرتی جتنا اسے کرنا چاہیے۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جنرل ضیا نے محمد بن قاسم کو نصاب میں شامل کرکے اسے سندھ کا ہیرو بنادیا حالاں کہ ہمارے کالم میں جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے ان سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن قاسم فطری طور پر سندھ کا ہیرو اور راجا داہر فطری طور پر سندھ کا ولن ہے۔