توجہ طلب مسائل

275

صائب رائے دی جارہی ہے کہ سندھ میں آئندہ سال گندم کے شدید بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اس بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے محکمہ خوراک سندھ نے صوبے سے گندم کی باہر منتقلی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیدیا۔ سندھ میں گندم کی نئی فصل مارچ کے پہلے ہفتے میں مارکیٹ میں آچکی تھی لیکن کورونا وائرس کے باعث گندم کی کٹائی کے لیے مزدوروں کی عدم موجودگی اور ٹرانسپورٹ کے بند ہونے کے باعث سندھ کے شہری علاقوں میں گندم کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ محکمہ خوراک کے ترجمان کے مطابق منگل تک محکمہ خوراک نے 7لاکھ 36 ہزار ٹن گندم کی خریداری کی ہے۔ جبکہ حکومت نے 14 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا ہے۔ فلور ملز مالکان کے مطابق آئندہ سال سندھ کو کم سے کم چار لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ حکومت سندھ کورونا وائرس کے باعث گندم کی خریداری نہیں کرپائی اور ٹڈی دل سے سندھ میں گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ محکمہ خوراک سندھ نے گندم کی صوبہ سے باہر منتقلی اور گندم کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سخت احکامات جاری کر دیے ہیں اور ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ سے رابطہ میں رہیں اور کارروائیوں کے لیے درکار معلومات اور دستاویزات کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اعلامیہ کے مطابق محکمہ خوراک سندھ کی جانب سے افسران کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ گندم کی صوبہ سے باہر منتقلی اور ذخیرہ اندوزی سے گندم کی قیمت بڑھ رہی تھی جبکہ حکومت سندھ نے ڈپٹی کمشنرز، ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو ویسٹ پاکستان فوڈ اسٹف (کنٹرول) ایکٹ 1958 کے تحت گندم کی صوبہ سے باہر منتقلی اور گندم کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کے اختیارات دے دیے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سندھ کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں چلتی ہوئی (فنکشنل) فلور ملز منظور شدہ 90 دن کی گندم کا ذخیرہ رکھنے کی مجاذ ہیں۔ محکمہ خوراک سندھ نے وضاحت کی ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کی کارروائیوں میں ضبط کی گئی گندم کو خریداری تصور کیا جائے گا۔
کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ڈھائی ماہ کی مدت گزر جانے کے بعد بھی اتفاق رائے نہ ہونے سے ہر شہری الجھن کا شکار ہے اور اس کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ حکومت سندھ اور مرکز کے اختلافات دھواں دھار بیان بازی کی شکل میں پوری قوم کے سامنے ہیں جبکہ باقی تین صوبوں اور مرکز کی پالیسی میں بھی ہم آہنگی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے صورت حال یہاں تک آپہنچی کہ عدالتِ عظمیٰ کے موجودہ چیف جسٹس کو پچھلے مہینے کی دس تاریخ کو پہلی بار کسی معاملے میں ازخود نوٹس لینا پڑا جبکہ بیس تاریخ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بنچ میں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومتی اقدامات، رقوم کے استعمال نیز وفاق اور صوبوں کے طریقہ کار میں ہم آہنگی اور شفافیت پر اہم سوالات اٹھائے۔ دو ہفتے بعد گزشتہ روز کیس کی تاریخ پر توقع کی جارہی تھی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹوں کے ذریعے عدالت کے سامنے اطمینان بخش صورتحال آئے گی لیکن سماعت کے موقع پر حکومتی کارکردگی کا کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا جو عدالت کے لیے باعثِ اطمینان ہوتا جس کی بناء پر چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ’’کہیں شفافیت نہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں ہی میں ہورہے ہیں‘‘۔ صدر اور وزیراعظم کے ارادوں کے نیک ہونے پر کسی شک کا اظہار نہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ بنچ کے رکن جسٹس عمر عطاء بندیال کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنا مافی الضمیر ان الفاظ میں زبان پر لے آئے کہ ’’وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور، اَنا اور تکبر ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا ذاتی عناد ہے جس سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے‘‘۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا ’’کوئی صوبہ پالیسی کے ساتھ نہیں آیا، جس شعبے سے ڈرتے ہیں، اُسے کھول دیتے ہیں، تاجروں کو کاروبار کی اجازت نہیں اور مساجد کھول دی گئی ہیں‘‘۔
کورونا کے نام پر خرچ ہونے والی خطیر رقوم پر بھی عدالت نے سخت عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’’ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ماسک اور دستانوں کے لیے کتنے پیسے
چاہئیں، اگر تھوک میں خریدا جائے تو ماسک دو روپے کا پڑتا ہے، پتا نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں ہی میں ہورہے ہیں‘‘۔ کاروبار اور کارخانے کھولنے کے معاملے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مسلسل اختلاف رائے اور تذبذب پر سخت گرفت کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو یکساں پالیسی وضع کرنے کی خاطر ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ یکساں پالیسی نہ اپنائی گئی تو عدالت خود عبوری حکم نامہ جاری کردے گی۔ منتخب سیاسی حکومتوں کی کارکردگی پر عدالت عظمیٰ کا اس درجہ عدم اطمینان تمام متعلقہ اداروں اور ذمہ داروں کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ ماضی کے ادوارِ حکومت میں بارہا بیرونی جارحیت، دہشت گردی اور دیگر اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یکساں حکمت عملی تشکیل دینے کی خاطر تمام باہمی اختلافات کے باوجود کل جماعتی کانفرنسوں، پارلیمان کے خصوصی اجلاسوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمے داروں کے مشترکہ تبادلہ خیال کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں حد درجہ سنگین حالات میں بھی ایسے کسی بندوبست کی کبھی کوئی قابلِ ذکر کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس تناظر میں عدالت عظمیٰ نے کورونا کے حوالے سے مسلسل کوتاہی پر جس قدر سخت برہمی ظاہر کی ہے‘ وہ بیجا نظر نہیں آتی لہٰذا حکمرانوں کو ذاتی اَنا کو بالائے طاق رکھ کر مقررہ مدت میں پوری سنجیدگی سے اس بارے میں یکساں پالیسی وضع کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اب بھی ایسا نہ کرنے کا مطلب اقتدار کا جواز کھودینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔