پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ حکومت خود کنفیوژن کا شکار ہے، کوئی اسٹریٹجی نہیں نہ ہی کوئی نیشنل ایکشن پلان ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں لاک ڈاؤن کا فیصلہ اشرافیہ کا تھا، اشرافیہ حکومت کی ٹیم میں ہے، وزیر اعظم کونسی اشرافیہ کی بات کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پارلیمنٹس نے کورونا کیخلاف مشترکہ حکمت عملی کے لیے اجلاس بلائے، لیکن ہماری پارلیمنٹ کو تالے لگائے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں فیصلے ہوتے لیکن تمام فیصلے انفرادی طور پر کیے گئے۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کورونا کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ جب کیسز کم تھے تو ملک میں لاک ڈاؤن لگایا گیا، جب کیسز بڑھ گئے تو لاک ڈاؤن ہٹا دیا گیا۔ حکومت کو لاک ڈاؤن ختم کرتے وقت عوام کو کہنا چاہیے تھا کہ تعیشات کے لیے نہ نکلیں بلکہ صرف ضرورت کے لیے گھروں سے نکلیں۔ حکومت کو مکمل ایس او پیز کے ساتھ لاک ڈاؤن اٹھانا چاہیے تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز الاسلامی پشاور سے جاری کیے گئے اپنے بیان میں کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کی تجاویز لینے کے لیے سنجیدہ تھی تو وزیر اعظم خود اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس بلاتے لیکن انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عمران خان نہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے نہ ہی سینیٹ کے اجلاس میں، وزیر اعظم کا رویہ متکبرانہ اور غرور پر مبنی ہے۔ حکومت وبا میں بھی سولو فلائٹ لینا چاہتی ہے اور اس میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی دی ہیں، حکومت پر تنقید اور اس کا محاسبہ اپوزیشن کا کام ہے، حکومت کو اپوزیشن کی تنقید کی روشنی میں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے کہتی تھی کہ یہ زندگی اور موت کا مقابلہ ہے اب کہتی ہے کہ زندگی اور بھوک کا مقابلہ ہے۔ حکومت بتائے کہ 3 ہزار روپے میں کس خاندان کا مہینہ بھر کا خرچا پورا ہوتا ہے؟ آئی ایم ایف نے 1.3 ارب ڈالر کورونا فنڈ کی مد میں دیے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے ملنے والی رقوم کو غریبوں میں تقسیم کرے اور 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ دے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ڈاکٹروں کو سہولیات اور سامان مہیا کرے۔ یہ ہمارے فرنٹ لائن سپاہی ہیں۔ اگر یہ ڈیفنس لائن گر گئی تو ہم بہت بڑے نقصان سے دوچار ہوں گے۔ اس لیے حکومت کو بروقت تمام اقدامات اٹھانے چاہییں۔